• KHI: Zuhr 12:27pm Asr 4:52pm
  • LHR: Zuhr 11:57am Asr 4:23pm
  • ISB: Zuhr 12:03pm Asr 4:28pm
  • KHI: Zuhr 12:27pm Asr 4:52pm
  • LHR: Zuhr 11:57am Asr 4:23pm
  • ISB: Zuhr 12:03pm Asr 4:28pm

منفرد طرزِ تدریس سے شہرت پانے والے عمرکوٹ کے باصلاحیت آرٹ ٹیچر

شائع July 29, 2024

کشور کمار کھتری کو ہمیشہ سے تصاویر بنانے سے کافی لگاؤ تھا۔ بچپن میں وہ اپنے تصورات کو تصاویر میں ڈھالتے اور ہر اس چیز کی تصویر بناتے جو ان کی آنکھوں کو بھا جاتی۔

وہ سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں صحرائے تھر سے قریب ایک چھوٹے سے قصبے ڈھورنارو سے تعلق رکھنے والے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد ڈاکٹر جبکہ ان کی والدہ گھریلو امور سنبھالتی تھیں۔ دونوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے تینوں بچے اچھی تعلیم حاصل کریں۔

چونکہ کشور کمار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اس لیے ان کے والدین نے انہیں موقع دیا کہ وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں پر کام کریں۔

یہ سلسلہ چھٹی جماعت تک چلتا رہا، اس وقت وہ مقامی سرکاری اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ اسکول میں ان کے ایک استاد نے کشور کمار کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو پَرکھا۔ کشور کمار نے اکثر اسکول کی جانب سے دیے گئے اسائنمنٹس میں اپنی فنکاری کا مظاہرہ کیا جیسے ہوم ورک میں سیب بنانے کو دیا جاتا تو وہ پھلوں کی پوری ٹوکری بنا دیتے۔

حال ہی میں کشور کمار 40 برس کے ہوئے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے استاد اور ان کی فیملی کی سپورٹ کی وجہ سے انہیں احساس ہوا کہ انہیں خداداد صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ وہ ڈان کو بتاتے ہیں، ’میری حوصلہ افزائی میرے بڑوں نے کی اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ میں اپنے طلبہ کی بھی اسی انداز میں حوصلہ افزائی کروں‘۔

لیکن محدود تعلیمی وسائل کی وجہ سے کشور کمار کے اسکول یا کالج میں آرٹ کی کلاسز نہیں ہوتی تھیں اور یوں انہوں نے روایتی راستہ اختیار کیا۔ ان کا آرٹ بلیک بورڈ پر چاک سے تصاویر بنانے تک محدود ہوگیا کیونکہ پینٹ اور پیسٹل کلز سے مصوری کرنا نہ صرف مہنگا ہے بلکہ اس کے استعمال میں بھی کافی وقت صَرف ہوتا ہے۔

کشور کمار نے اسکول اور کالج کی تعلیم عمر کوٹ سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں بیچلرز کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے فوٹو اسٹوڈیو میں بھی کام کیا۔

   طلبہ کو حیاتیات پڑھانے کے لیے انہوں نے چاک سے کنکال کی تصویر بنائی ہے
طلبہ کو حیاتیات پڑھانے کے لیے انہوں نے چاک سے کنکال کی تصویر بنائی ہے

ان کی قسمت اس وقت بدل گئی جب وہ عمر کوٹ کے ایک نجی اسکول میں آرٹ کے استاد کے طور پر تعینات ہوئے۔ تنخواہ معمولی تھی اور وہ چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلبہ کو آرٹ کی تعلیم دیتے تھے۔

یہاں وہ وائٹ بورڈ پر مارکر سے خاکے بناتے تھے۔ کشور کمار کہتے ہیں، ’وائٹ بورڈ پر، چاک کی ڈرائنگ سے زیادہ وقت صَرف ہوتا ہے لیکن کم از کم طلبہ میری کلاسز سے لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں‘۔

کشور کمار کو خود بھی یہ علم نہیں کہ وہ ایک ایسے جدید طریقے سے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں جسے دنیا بھر میں تجویز کیا جارہا ہے۔ یعنی پہلے تصاویر بنانا، ان تصاویر کی مدد سے بچوں کو سبق سمجھانا اور پھر بچوں کو خود مشق کرنے کو دینا۔

یوں وہ جلد ہی طلبہ کو سائنس کی تعلیم دینے لگے جہاں ان کی ڈائی گرامز طلبہ میں خوب مقبول تھیں کیونکہ انہیں سبق سمجھنے اور مشق کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔

کشور کمار کے لیے طلبہ سے ملنے والی محبت اور عقیدت بہت اہمیت رکھتی ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔ وہ ڈان کو بتاتے ہیں کہ آج بھی فارغ التحصیل طلبہ اور پرانے اسکول کے ساتھی اساتذہ انہیں باقاعدگی سے پیغامات بھیجتے ہیں اور ان کے منفرد اور تخلیقی طرزِ تدریس پر ان کی پذیرائی کرتے ہیں۔

تاہم اپنی معمولی سی تنخواہ پر کشور کمار کے لیے اپنی بیوی اور بچے کے اخراجات اٹھانا مشکل تھا۔ تو موقع ملنے پر 2022ء میں وہ عمرکوٹ سے باہر واقع ایک سرکاری اسکول میں بطور پرائمری ٹیچر بھرتی ہوگئے۔

ان کی سائنس کی کلاسز انتہائی کامیاب رہیں جہاں وہ بلیک بورڈ پر چاک سے بڑی بڑی تصاویر بنا کر بچوں کو سمجھاتے کہ انسانی جسم کیسے کام کرتا ہے۔ وہ انگریزی زبان کے سادہ تصورات سمجھانے کے لیے بھی چاک کی مدد سے آرٹ تشکیل دیتے ہیں۔

استاد آرٹ کے ذریعے اپنا پیار طلبہ تک پہنچاتا ہے
استاد آرٹ کے ذریعے اپنا پیار طلبہ تک پہنچاتا ہے

کشور کمار کہتے ہیں کہ انہیں فطری طور پر چاک سے فن پارے بنانے کی لگن پیدا ہوئی لیکن ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ یہ دکھنے میں جتنا آسان لگتا ہے، اتنا ہے نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’چاک سے کام کرتے ہوئے چاک کے پاؤڈر سے نمٹنا پڑتا ہے جوکہ گندگی پھیلاتا ہے اور کچھ کو اس سے الرجیز بھی ہوسکتی ہیں۔ چاک ختم بھی ہوسکتی ہے یا ہوسکتا ہے کہ کلاس میں اتنی جگہ ہی نہ ہوکہ آرٹ کی سرگرمیاں ہوسکیں‘۔

کشور کمار کی دیرینہ خواہش ہے کہ گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول مانو ملہی (جہاں وہ پڑھاتے ہیں) کی دیواریں بنائی جائیں جوکہ سیلاب کے دوران تباہ ہوگئی تھیں۔ اسکول کی دیواریں فی الوقت سیلاب کی وجہ سے کمزور اور گیلی ہیں جن کی وجہ سے ان کے طالب علموں کے فن پارے ان دیواروں پر آویزاں نہیں کیے جاسکتے، جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ دیواروں کے ذریعے سب ان کے طالب علموں کی تخلیقات کا نظارہ کریں۔

وہ زور دیتے ہیں کہ ’پڑھائی کے عمل میں تصاویر کو شامل کرکے ہم طلبہ کے لیے جامع، پُرکشش اور مؤثر تعلیمی ماحول تشکیل دے سکتے ہیں‘۔

کشور کمار کا کہنا ہے کہ جب سے انہوں نے چاک سے تصاویر بنانے کا آغاز کیا ہے، اس سے طلبہ کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سائنسی تحقیقات نے بھی ثابت کیا ہے کہ بصری تدریس طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سوچ کی نشوونما کے لیے فائدہ مند ہیں۔

وہ اپنے طلبہ کے ساتھ مخلص ہیں۔ وہ ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو سب سے پہلے اسکول آتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی گاڑی یا سواری نہیں لیکن اس کے باوجود وہ روزانہ 15 سے 20 منٹ پیدل چل کر اپنے گھر سے اسکول آتے ہیں۔

یہ تعجب کی بات نہیں کہ سندھ کے چھوٹے سے شہر میں کام کرنے والے یہ استاد نہ صرف سندھ کے محکمہ تعلیم کی آنکھوں کا تارا ہیں بلکہ پنجاب میں بھی انہیں پسند کیا جاتا ہے۔

سندھی حرفِ تہجی تصاویر بنا کر سیکھاتے ہیں—تصویر: کشور کمار
سندھی حرفِ تہجی تصاویر بنا کر سیکھاتے ہیں—تصویر: کشور کمار

چند ماہ قبل مختلف کلاسز کے دوران ان کے بنائے ہوئے خاکوں اور ڈرائنگ کی تصاویر سوشل میڈیا پر خوب شیئر کی گئیں جو سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کی نظروں میں بھی آئیں۔

چند دن پہلے کشور کمار، وزیرتعلیم پنجاب رانا سکندر حیات کے بھی مہمان بنے اور انہوں نے پنجاب کے محکمہ تعلیم کے مختلف اہلکاروں سے بھی ملاقات کی اور تدریس کے طریقوں پر ان سے بات چیت کی۔

کشور کمار پُرامید ہیں کہ ان کی کامیابی دیکھ کر حکومت بھی قائل ہوجائے گی اور وہ مزید آرٹ ٹیچرز کو بھرتی کریں گے اور بصری تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ان اساتذہ کو تربیت بھی دیں گے۔

’طلبہ کو پینسل اور کتابیں درکار ہوتی ہیں لیکن انہیں اچھے اور تربیت یافتہ اساتذہ کی بھی ضرورت ہے‘۔

صرف ایسے طریقے اپنا کر ہی کشور کمار جیسے باصلاحیت لوگوں کا ٹیلنٹ مزید نکھر سکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

دولت چندانی

لکھاری مٹھی میں مقیم استاد اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ آپ کا ایکس ہینڈل ChandaniDolat@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 16 ستمبر 2024
کارٹون : 15 ستمبر 2024