• KHI: Fajr 5:33am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:11am Sunrise 6:36am
  • ISB: Fajr 5:18am Sunrise 6:45am
  • KHI: Fajr 5:33am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:11am Sunrise 6:36am
  • ISB: Fajr 5:18am Sunrise 6:45am

جبری گمشدگیاں اور ہتک عزت کا قانون: کیا ہم آمرانہ ریاست بننے جارہے ہیں؟

شائع May 29, 2024

مبینہ جبری گمشدگی کے ایک اور واقعے نے ظاہر کیا ہے کہ کیسے ملک میں کچھ قوتوں کو استثنیٰ دیا گیا جو بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ میں خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں۔ دو ہفتے قبل کشمیری صحافی اور شاعر احمد فرہاد شاہ کو اسلام آباد میں ان کے گھر سے اغوا کرلیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔

لاپتا افراد کی طویل فہرست میں احمد فرہاد تازہ اضافہ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے معاملے میں ہماری ریاست کا ریکارڈ کس طرح خراب تر ہوتا جارہا ہے اور کیسے دن بہ دن یہ جبر کو آلے کے طور پر استعمال کرنے کی عادی ہورہی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں ہم نے دیکھا کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے اغوا کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیز ہوتی ہیں۔ ہائبرڈ انتظامیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں کے دوران ان واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

لاپتا نوجوان شاعر جس نے اسٹیبلشمنٹ پر سوالات اٹھانے کی جرات کی، حکومت اس کی بازیابی کے لیے خاطر خواہ کوشش کرتی نظر نہیں آرہی۔ انہیں آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے بعد اغوا کیا گیا جس میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ یہ بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے انہیں انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے ہراساں بھی کیا جارہا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، وفاقی وزیر قانون اور سیکریٹری داخلہ، دفاع اور قانون کی آئندہ سماعت پر طلبی کے بعد لاپتا شاعر کے معاملے پر عوام کی توجہ میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج محسن اختر کیانی نے بھی حکم دیا ہے کہ لاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت کو براہ راست نشر کیا جائے تاکہ ’عوام کو آگاہی اور اہم قانونی مسائل سمجھنے میں آسانی ہو‘۔

یقینی طور پر یہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جرات مندانہ فیصلہ ہے جوکہ پہلے ہی انٹیلی جنس اداروں کے دباؤ کا مقابلہ کررہی ہے۔ عدالتی حکم نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت کے درمیان تصادم کو مزید سنگین کردیا ہے۔

احمد فرہاد شاہ کے معاملے نے ایک بار پھر ملک میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ عدالت میں سیکڑوں لاپتا افراد کے مقدمات زیرِسماعت ہیں۔ بہت سے افراد تو کئی سالوں سے لاپتا ہیں۔ ملک میں لاپتا افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اور وہ اس وقت کہاں موجود ہیں، اس حوالے سے معلومات بھی انتہائی کم ہیں۔ حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ وہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے پُرعزم ہے، غیرقانونی حراستوں کا سلسلہ رک نہیں پایا ہے۔ صرف گزشتہ سال 2023ء میں جبری گمشدگیوں کے 51 مقدمات رپورٹ ہوئے۔

گزشتہ ایک سال میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پنجاب اور خیبرپختونخوا کے رہنماؤں کو بھی اغوا کیا گیا جنہیں بعدازاں اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور یوں انہیں رہائی ملی۔ اغوا کیے جانے والے بہت سے افراد کسی مقدمے کے بغیر مہینوں سے حراست میں ہیں۔ کشمیری شاعر کی جبری گمشدگی حکومت کی غیرقانونی کارروائیوں کے تسلسل کی اہم مثال ہے۔ یہ جمہوریت کی دعوے دار حکومت کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی ایک معاملہ نہیں بلکہ ہائبرڈ نظام کی قانونی حیثیت پر اٹھتے ہوئے سوالیہ نشانات علامت ہیں کہ ملک میں جمہوریت کے لیے جگہ تنگ ہورہی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیز کو کھلا ہاتھ دے دینے کی وجہ سے قانون کی حکمرانی مکمل طور پر غیرفعال ہوچکی ہے۔

اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف مسلم لیگ (ن) کی حکومت خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتی ہے، اس نے آزادی اظہارِ رائے کو مکمل سلب کرنے کے لیے ملک میں اقدامات کیے ہیں۔ حال ہی میں اس نے عدالتی کارروائیوں کی رپورٹنگ اور کوریج پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ اس کا مطلب ان میں سیاسی اور لاپتا افراد کے مقدمات کی عدالتی کارروائیاں بھی شامل ہوں گے۔

یہ وہی سیاسی جماعتیں ہیں جو حزب اختلاف میں بیٹھ کر جمہوری حقوق اور قانون کی حکمرانی کی چیمپیئن ہونے کا دعویٰ کرتی تھیں۔ وفاقی حکومت کا سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا حالیہ اقدام، آزادی اظہار کو روکنے کی کوششوں کا حصہ لگتا ہے۔ حال ہی میں منظور ہونے والا پنجاب ہتک عزت کا بل 2024ء پاکستان کی حالیہ تاریخ کے سیاہ ترین قوانین میں سے ایک ہے جوکہ آمرانہ دور کی یاد دلاتا ہے۔

سول سوسائٹیز اور میڈیا تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس بل کو یہ بہانہ بنا کر اسمبلی میں پیش کیا کہ اس کا مقصد جعلی خبروں اور ریاستی اداروں پر تنقید کو روکنا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیں قوانین کے تابع ذمہ دار میڈیا کی ضرورت ہے۔ لیکن جس طرح سے متنازع ہتک عزت قانون کا مسودہ تیار کیا گیا ہے، وہ حکومت کے مذموم مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔

بل میں ہتک عزت کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے، ’جھوٹے یا غلط بیان کی اشاعت، نشریات یا پرچار۔۔۔ جس سے کسی شخص کی ساکھ متاثر ہو یا کسی دوسرے کی نظر میں اس کی عزت میں کمی واقع ہو۔‘ تو اس قانون کے مطابق، حکومت یا سیکیورٹی اداروں کے غیرقانونی اقدامات پر تنقید بھی جرم ہے۔

دوسری جانب حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس قانون کا مقصد غلط، گمراہ کُن یا ہتک آمیز اشاعت کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن اسے نہ صرف آزادی صحافت کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے بلکہ سیاسی مخالفین کی آوازیں دبانے کے لیے بھی اس قانون کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ قانون حکومتی ٹربیونلز کو اختیار دیتا ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے والوں کو دفاع کا حق دیے بغیر قانونی چارہ جوئی کرسکتی ہیں۔ سخت ترین آمرانہ دور میں بھی ہم نے اس طرح کا ظالمانہ قانون نہیں دیکھا۔ درحقیقت یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے غیرقانونی اور غیرآئینی اقدامات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس کی اسمبلی نے اس قانون کو منظور کیا ہے۔

جہاں متنازع بل کے نفاذ کے لیے گورنر کے دستخط کا انتظار ہے وہیں وزیراعلیٰ مریم نواز کی سربراہی میں پنجاب حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے کہ ’ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ بنانے پر‘ سب سے پہلے اس قانون کا اطلاق سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں پر ہوگا۔ اس سے یہ مزید واضح ہوگیا ہے کہ ہتک عزت کے قانون کا مقصد اپوزیشن اور حکومت مخالف آوازوں کو دبانا ہے۔

یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر تنقید کو کس طرح مجرمانہ فعل قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھانے کو بھی غیرقانونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ درحقیقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عدلیہ کو ہراساں کرنا جرم ہے۔

ہتک عزت کے قانون کے نفاذ سے پہلے ہی ہم نے احمد فرہاد کو اغوا ہوتے، ججز کو دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرتے دیکھ لیا ہے۔ پاکستان کو آمرانہ ریاست میں تبدیل ہونے کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جو اس طرح کے سخت قوانین کے نفاذ سے اپنے ہی موت کے وارنٹ پر دستخط کررہی ہے جنہیں مستقبل میں انہیں کی جماعت کے رہنماؤں کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 نومبر 2024
کارٹون : 19 نومبر 2024