ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی، کیا پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے؟
ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے حیران کُن کچھ نہیں تھا۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات کے درمیان قومی و صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ تر نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔
شاید یہ 8 فروری کے عام انتخابات جیسا نہ ہو لیکن ضمنی انتخابات کو شفاف بھی نہیں کہا جاسکتا۔ برسرِاقتدار ہونے کی وجہ سے حکمران جماعت کو صوبائی انتظامی امور کے مکمل اختیارات حاصل تھے جوکہ واضح طور پر ان کے حق میں مثبت ثابت ہوا۔ اگرچہ دو قومی اور 10 صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیت کر مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور صوبے میں پوزیشن مستحکم ہوئی ہے لیکن یہ پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کا پیمانہ نہیں جیسا کہ پارٹی کی قیادت دعویٰ کررہی ہے۔ انتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے عوامی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔ موجودہ نظام پر اس کی قانونی حیثیت کے حوالے سے انگلیاں اب بھی اٹھائی جارہی ہیں۔
تاہم بڑھتی ہوئی اندرونی دراڑیں مسلم لیگ (ن) کے لیے زیادہ پریشان کُن ہیں۔ جماعت کے کچھ سینیئر رہنما اب کھل کر شہباز شریف کے ہائبرڈ طرزِ حکومت پر ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس اندیشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اصل اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور بڑے بھائی نواز شریف جو تخت کے اصل وارث ہیں، انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ جماعت میں اندرونی تقسیم واضح ہوتی جارہی ہے۔
شاید یہ شہباز شریف کی حکومت کے لیے فوری خطرہ نہ ہو لیکن ان اختلافات کا سنگین صورت اختیار کرنے کا خطرہ موجود ہے جہاں انتظامیہ اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں عدم اطمینان صرف شریف خاندان میں اقتدار کی تقسیم نہیں بلکہ یہ ہائبرڈ طرزِ حکمرانی میں موروثی سیاست کے تضاد کی نشانی بھی ہے اور پارلیمنٹ کے باہر موجود قوتوں کی جانب طاقت کا زیادہ جھکاؤ ہے۔
حکمران اتحاد سے کسی طرح کی وابستہ نہ ہونے کے باوجود محسن نقوی کے کابینہ کے سب سے بااثر عہدے پر براجمان ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے اپنے مخصوص انداز میں سب کہہ دیا۔ وزیرِداخلہ کے ساتھ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات بھی واضح ہیں۔ سابق وزیرداخلہ رانا ثنااللہ جوکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماؤں میں شامل ہیں، نے ایک ٹی وی انٹرویو میں طنزیہ انداز میں کہا کہ محسن نقوی چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے بہت سے دیگر وفادار اراکین بھی اسی طرح کا مؤقف رکھتے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ وزیرِ داخلہ وزیراعظم کے تحت یا ان کے ساتھ کام نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر تمام اتحادی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ سینیٹ میں محسن نقوی کا انتخاب، ان کے طاقتور سرپرستوں کے حوالے سے گردش کرنے والے مفروضوں کی تصدیق ہے۔ ایک میڈیا ہاؤس کے مالک کا اتنے اعلیٰ سیاسی عہدے تک پہنچنا کافی حیرت انگیز ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ سابق نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب بیک وقت کئی عہدوں پر فائز ہیں۔ وزیرِداخلہ کے طور پر کابینہ کے طاقتور ترین عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سربراہ بھی ہیں جبکہ پی سی بی کے چیئرمین شپ کے لیے متعدد امیدوار موجود تھے۔ تو ایسے میں رانا ثنااللہ کا یہ بیان کافی معنی خیز ہے۔
تاہم اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں گہری مداخلت کے ساتھ ساتھ ایسی کامیابی کوئی نئی بات نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی ایک اور دلچسپ مثال فیصل واوڈا کا بطور سینیٹر منتخب ہونا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑنے والے فیصل واوڈا عمران خان کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے اور ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط تعلقات مشہور ہیں۔ سینیٹ انتخاب میں تمام اتحادی جماعتوں نے ان کی حمایت کی۔ رانا ثنااللہ کے بقول، ’یہ سب ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں‘۔
اگرچہ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے میں شاید کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر ناراضی واضح ہورہی ہے۔ صرف رانا ثنااللہ نہیں بلکہ دیگر رہنما بھی اب بول پڑے ہیں۔ ان کے دور میں شاید جماعت میں اندرونی تصادم نہ ہو لیکن عوامی حکومت کے اختیارات کم کرنے کے حوالے سے ان کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے رہنما 8 فروری کو شکست سے دوچار ہوئے تھے جس سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ اکثریت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں۔ تین بار وزارتِ اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے نواز شریف نے خود کو پنجاب تک محدود کرلیا ہے جہاں وہ صوبائی انتظامی امور چلانے میں اپنی بیٹی کی کی مدد کررہے ہیں۔ لیکن وہ فیصلہ سازی کے عمل سے پوری طرح لاتعلق نہیں۔ وہ اب بھی اہم پارٹی اور حکومتی معاملات کے فیصلے لیتے ہیں۔
پارٹی کے کچھ رہنما نواز شریف کے پیچھے ہٹنے کے فیصلے کو خود کو حکومتی تنازعات سے دور رکھنے اور اپنے آپ کو وقت دینے کی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن شاید یہ تجربہ کار سیاستدان کے لیے اتنا آسان نہ ہو۔ 8 فروری کے عام انتخابات میں ایک نشست پر شکست اور لاہور کی نشست پر متنازع جیت کے بعد نواز شریف کی پوزیشن کافی حد تک کمزور ہوئی ہے۔ یہ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ یہ ان کی پارٹی کی وہ جیت تھی جس کے لیے انہوں نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔
درحقیقت مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں واپسی اور انتہائی کمزور مخلوط حکومت کی بقا صرف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ممکن ہے۔ اس صورتحال میں یہ حیران کُن نہیں ہے کہ ہائبرڈ نظام میں طاقت کے ترازو کا جھکاؤ ملٹری قیادت کی جانب ہے۔ قانونی حیثیت کے سوال نے پارلیمنٹ کی طاقت کو مزید کمزور کر دیا ہے جس نے غیر منتخب عناصر کو زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود مضبوط اپوزیشن کے دباؤ کے ساتھ حکومت کی حالت متزلزل ہے۔ ایسی صورتحال میں شہباز حکومت کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے نامزد کردہ وزیرِداخلہ کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
جسے ہم ہائبرڈ پلس نظام کے طور پر بیان کرتے ہیں، اس کے اپنے مسائل ہیں جو نظام کو متاثر کرتے رہیں گے۔ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی مداخلت پر مسلم لیگ (ن) کے چند رہنماؤں کا وقتاً فوقتاً ظاہر ہونے والا غصہ سے یہ امکان موجود نہیں کہ طاقت کا موجودہ نظام کو تبدیل ہوگا۔
اس سب سے نکلنے کا واحد راستہ سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت ہے۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی شاید عوامی حکومت کے اختیارات پر زور دینے کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس سے محاذ آرائی کی سیاست میں مزید اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔
ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے خرابی کا شکار سیاسی نظام کو ٹھیک نہیں جاسکتا۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جس سے بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان کچھ سیکھ نہیں پائے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔