’میں نہ مانوں‘ کے ماحول میں سیاستدان اپنی بات کیسے منوائیں؟
عید کی آمدآمد ہے اور ہمارے ملک میں یہ عیدالفطر ایسے ماحول میں منائی جائے گی جب کوئی کسی کی ماننے کو تیار نہیں۔ عدلیہ حکومت کی نہیں مان رہی اور حکومت عدالت کی اتنی بھی ماننے کو تیار نہیں کہ مان رہ جائے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی ماننے پر تیار نہیں تو پی ٹی آئی حکومتی اتحاد کو اس ہنومان کے سوا کچھ نہیں مانتی جس نے لنکا ڈھا دی تھی اور اس کا ماننا ہے کہ شہباز شریف کی سرکار ملک پر ’سری لنکا‘ ڈھا کر رہے گی۔
وزارت دفاع نے منصفوں سے پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم واپس لینے کی درخواست کی اور اس سلسلے میں قوم نے ’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ کا منظر بھی دیکھا، لیکن دوسری طرف فی الوقت میں نہ مانوں کی کیفیت نظر آتی ہے۔ قمر جاوید باجوہ انٹرویوز کے ذریعے عمران خان کو بار بار ’مان مرا احسان ارے نادان کہ میں نے تجھ سے کیا ہے پیار‘ کا پیغام بھیج چکے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے چیئرمین اپنے ارمان لُٹنے کا شکوہ دہراتے ہوئے شاکی ہیں ’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے، ہم وفا (مثلاً فوج پر تنقید پر سزا کا بل، ایکسٹینشن، آرمی چیف قوم کے والد محترم ہوتے ہیں کے انکشاف کی صورت میں) کرکے بھی تنہا رہ گئے‘۔
مردم شماری کرنے والے کراچی کی آبادی نہیں مان رہے اور ایم کیو ایم یہ مردم شماری ماننے کو تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی کامیابی منوانے پر تلی ہے اور جماعت اسلامی اسے من مانی قرار دیتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کر رہی ہے، جو پی پی پی کے نزدیک نری حافظ نعیم الرحمانی خوش گمانی ہے۔ اور تو اور حکومت کی جماعتیں بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے معاملے پر ایک دوسرے کی ماننے کو تیار نہیں اور کہیں قاضی ایک دوسرے ہی سے راضی نہیں۔
اس فضا میں آنے والی عید سب کو یہ موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو عیدی اور تحفے بھیج کر منانے کی کوشش کرلیں۔ چونکہ یہ میٹھی عید ہے اس لیے گلے شکووں کے خاتمے، سننے سنانے اور اپنا مؤقف تسلیم کروانے کے لیے مٹھائی سے اچھا تحفہ کیا ہوگا۔ ہم کچھ مٹھائیاں تجویز کیے دیتے ہیں جن کا باہمی تبادلہ کرکے یہ شخصیات، جماعتیں اور ادارے ایک دوسرے کو مناسکتے ہیں۔ مٹھائی کا پورا ’ٹرک‘ بھی بھیجا جاسکتا ہے لیکن اسے طنزوطعنے کی Trick سمجھ لیا گیا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، اس لیے مٹھائی کسی چھوٹی گاڑی میں بھیجی جائے۔ خیال رہے کہ یہ گاڑی ’ویگو ڈالا‘ نہ ہو ورنہ ’عادتاً‘ مٹھائی راستے سے لاپتا بھی ہوسکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کون سی مٹھائی بھیجی جائے؟
گُلگُلے
ہمارے خیال میں گُلگُلے ان کے لیے مناسب رہیں گے جن کا چلن ہے ’گُڑ کھائیں گُلگُلوں سے پرہیز‘ گویا وہ میٹھے کے مخالف ہیں لیکن گُڑ سامنے آجائے تو فیصلہ ہوتا ہے کہ گُڑ کیوں کہ عوام میں مقبول میٹھا ہے اس لیے کھا لیا جائے لیکن گُلگُلے دیکھتے ہی انہیں شاید ’گُلوبٹ‘ یاد آجاتا ہے اس لیے ’اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں‘ کا فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے۔
ویسے گڑ بھیجنے کا خیال بھی برا نہیں۔ اس طرح فریقین ایک دوسرے کو گڑ نہیں دیں گے لیکن گڑ کھاکر گڑ جیسی بات تو کریں گے۔
فالودہ
اس مقصد کے لیے فالودہ بھی نہایت موزوں مٹھائی ہے۔ حالات نے ہر پاکستانی کے دماغ کا فالودہ کردیا ہے اس لیے یہ وافر مقدار میں دستیاب ہے چنانچہ بہت سستا پڑے گا بلکہ ممکن ہے بڑی مقدار مفت میں ہاتھ آجائے۔ اس مٹھائی کے ذریعے پیغام جائے گا کہ ’بھیّے! اس تکرار، تُوتُکار اور انتشار میں ہمارے، تمہارے اور تمام پاکستانیوں کے دماغ کا فالودہ ہوچکا ہے، اب بس کردو‘۔
جلیبی یا ریوڑی
ہماری سیاست اور حالات حاضرہ کی عکاسی جلیبی سے بہتر کوئی مٹھائی نہیں کرسکتی لیکن خدشہ ہے کہ اسے کھانے کے اثرات حالات کو مزید جلیبی نہ کردیں اس لیے جلیبی رہنے دیں۔
ریوڑی ایسی مٹھائی ہے جو ایک ضرب المثل کے مطابق اندھے اپنے اپنوں میں بانٹتے ہیں، لیکن ہر اندھا ایسا نہیں کرتا، مثال کے طور پر انصاف بھی اندھا ہوتا ہے لیکن وہ ریوڑیاں نہیں بانٹتا بلکہ کبھی کبھی تو اپنوں کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سے بچانے کے لیے ضمانتیں بانٹتا ہے۔ اس تناظر میں ریوڑی کا بھیجا جانا اچھا پیغام نہیں ہوگا، یہ بھی رہنے دیں۔
لڈو
لڈو بھیجنے میں مضائقہ نہیں لیکن دل میں پھوٹنے والے لڈو نہ بھیجے جائیں یہ لڈو وصول کنندہ کا غصہ بڑھانے کا سبب بنیں گے۔ بُور کے لڈو بہت اچھا تحفہ ہوں گے کیونکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے جو کھائے پچھتائے جو نہ کھائے پچھتائے۔ امکان ہے کہ وصول کرنے والا انہیں کھاکر پچھتانے کو ترجیح دے گا۔ موتی چُور کے لڈو بھی بھیجے جاسکتے ہیں، البتہ یہ اندیشہ ہے کہ چُورے والے موتی چُور کو چوری والا موتی چور سمجھ لیا گیا تو تعلقات میں کچھ اور گرہیں پڑ جائیں گی۔
گلاب جامن
گلاب جامن ہماری قومی مٹھائی ہے، پھر اس کے نام میں گلاب شامل ہے چنانچہ ہوسکتا ہے یہ تحفہ پانے والے کی آنکھوں میں اسے دیکھتے ہی محبت کے گلاب کِھل اٹھیں۔ اگرچہ یہ پیش کے ساتھ گلاب جامُن ہے لیکن یہ پیش کرنے والے پر ہے کے ڈبے پر مٹھائی کا نام لکھتے ہوئے ’من‘ پر پیش کی جگہ زبر لگاکر مَن کردے، ویسے بھی اب ہماری سیاست میں تلفظ کچھ کے کچھ ہوچکے ہیں روحانیت رحونیت بن چکی ہے اور معیشت معاشیت قرار پائی ہے، اس لیے یہ چھوٹی سی تبدیلی اردو کا مزید اور کیا بگاڑ لے گی۔ من لکھنے سے واضح ہوجائے گا کہ مٹھائی منانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔
حلوہ
حلوہ بھی اس موقع کے لیے برا نہیں۔ حلوہ بھیج کر گویا کہا جائے گا ’حضور! آپ اپنے حلوے مانڈے سے غرض رکھیے بس ہماری مان لیجیے آپ کا حلوہ مانڈا چلتا رہے گا‘۔ سردیاں چلی گئیں ورنہ گاجر کا حلوہ بھیجا جاسکتا تھا، جسے یہ ملتا اس کے ذہن میں اسے پاتے ہی ’گاجر اور چَھڑی‘’ کا مشہور انگریزی محاورہ گردش کرنے لگتا اور اگر بھیجنے والا کوئی ’چھڑی والا‘ ہوتا تو یہ حلوہ نہایت بامعنی ہوکر اپنے بھیجنے والے کی بات منوانے کے کام آسکتا تھا۔
ویسے عید پر سب سے اچھا میٹھا شکر ملا دودھ ہو سکتا ہے، ممکن ہے اس میٹھے کے وسیلے سے جو لوگ ایک دوسرے کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکنا چاہتے ہیں باہم شیروشکر ہوجائیں اور قوم خدا کا شکر ادا کرے۔