مونال ریسٹورنٹ کی بندش کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے دارالحکومت میں مارگلہ ہلز پر قائم مونال ریسٹورنٹ کا سامان اٹھانے کی مہلت دیے بغیر قبضہ مقامی انتظامیہ کو دینے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں مونال ریسٹورنٹ بند کرنے کے فیصلے کے خلاف دائر انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: مونال ریسٹورنٹ سیل، سی ڈی اے کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے اور عدالت نے ان سے پوچھا کہ بتائیں یہ سِیل کرنا کس کی ذمہ داری تھی اور کس نے کیا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فیصلے کے مطابق کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور وائلڈ لائف نے قبضہ لینا تھا، کیا آپ نے فیصلہ پڑھا تھا کہ اس میں لکھا ہے کہپہلے چیزیں نکالنے دیں۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ اب اگر وہاں سے کوئی چیزیں غائب ہوئی تو ذمہ دار آپ ہیں، جس پر ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ بالکل ہم ذمہ دار ہیں اور ہم نے اس پر کمیٹی بھی بنائی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے ایک طرح سے توہین عدالت کی ہے، قاعدے اور قانون کے مطابق بھی چلنا ہے یا بس جو دل میں آیا ڈز ڈز کر دی، فیصلے میں کچھ لکھا ہے آپ کچھ لکھ رہے ہیں، پہلے چیزیں نکالنی تھیں اور پھر عمارت سِیل ہونا تھی۔
عدالت نے مونال کے وکیل سردار تیمور سے استفسار کیا کہ سامان نکالنے کے لیے آپ کو کتنا وقت چاہیے، وقتی طور پر ہی آپ کو سامان نکالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
مونال کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ فی الحال عمارت کی موجودہ حیثیت برقرار رکھیں، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ کو وہاں سے سامان اٹھانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ نے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا حکم اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا
عدالت نے کہا کہ فیصلے کے مطابق عمارت کا قبضہ تو سی ڈی اے یا وائلڈ لائف کے پاس رہے گا، سی ڈی اے یا وائلڈ لائف کے پاس قبضہ لینے کے وسائل نہیں ہیں تو کمشنر آفس کو استعمال کرے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سنگل بینچ کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر چیزیں سامنے آئیں گی تاہم یہ حکم بڑا واضح ہے کہ آپ چیزیں اٹھا کر لے جائیں پھر مونال سِیل ہو جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی چیزیں اٹھا کر لے جائیں گے تو پھر سِیل ہو جائے گا، ابھی سی ڈی اے کو نہیں پتہ کہ اس عمارت کا قبضہ لے کر کیا کرنا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ مونال کے وکیل کو شاید خدشہ ہے کہ سی ڈی اے وہاں کسی اور کو بٹھا دے گا۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ یہ بات طے ہے کہ ابھی مونال کی جگہ کوئی کمرشل سرگرمی نہیں ہو سکتی، جس پر مونال کے وکیل سردار تیمور نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ وہاں قبضہ لیتے وقت امن و امان کا مسئلہ بنے گا۔
عدالت نے کہا کہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبضہ لیا جائے گا تو امن و امان کا مسئلہ کیوں ہوگا تاہم وکیل نے مونال کی عمارت کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے پر اصرار کیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ ہم اتنی سہولت آپ کو دے سکتے ہیں کہ آپ سامان نکال لیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم اس حوالے سے مناسب تحریری حکم نامہ جاری کر دیں گے اور مونال کا سامان اٹھانے کی مہلت دیے بغیر قبضہ لیے جانے کے خلاف متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 جنوری کو مونال کو اسی دن سیل کرنے اور سی ڈی اے کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کیسز پر سماعت کے دوران یہ حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ نیشنل پارک ایریا محفوظ شدہ علاقہ ہے، اس میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی، نیشنل پارک ایریا میں کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا تھا کہ مونال کی 8 ہزار ایکڑ زمین کا دعویٰ کون کر رہا ہے؟ اس عدالت کو نیشنل پارک کا تحفظ کرنا ہے، وہ 8 ہزار ایکڑ زمین اب نیشنل پارک ایریا کا حصہ ہے، جسے اب 1979 کے قانون کے تحت مینج کیا جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ مسلح افواج خودمختار ادارے نہیں ہیں، تمام آرمڈ فورسز کو وزارت دفاع کنٹرول کرتی ہے اور سیکریٹری دفاع یہاں موجود ہیں۔
عدالت عالیہ نے حکم دیا تھا کہ مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کریں، ساتھ ہی تحفظ ماحولیات کے ادارے کو تعمیرات سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: مونال ریسٹورنٹ کی زمین فوج واپس لینا چاہتی ہے، سی ڈی اے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی نشان دہی جلد مکمل کرنے اور ملیٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیاتھا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔
بعد ازاں 13 جنوری کو پاک بحریہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیوی سیلنگ کلب گرانے اور پاکستان نیول فارمز کی اراضی تحویل میں لینے کے ساتھ ساتھ نیول گالف کورس کو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) کی تحویل میں دینے کے فیصلے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی تھی۔
انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دورکنی اسپیشل بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔