بھارت: سپریم کورٹ نے نئے زرعی قانون پر عمل درآمد روک دیا

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2021
بھارت کی حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کے 8 دور ناکام ہوئے — فوٹو: رائٹرز
بھارت کی حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کے 8 دور ناکام ہوئے — فوٹو: رائٹرز

بھارتی سپریم کورٹ نے کسانوں کے احتجاج کا باعث بننے والے نئے زرعی قانون پر سماعت کے لیے پینل تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون پر غیر معینہ مدت تک حکم امتناع جاری کردیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس شراد بوبدے نے سماعت کے دوران کہا کہ کسانوں کے خدشات کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ ایک پینل تشکیل دے گا۔

خیال رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے مضافات میں ہزاروں کسانوں نے حکومت کی اصلاحات کے خلاف احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے جس کے حوالے سے ان کا مؤقف ہے کہ نجی خریداروں کو فائدہ اور کسانوں کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت میں نئے زرعی قوانین پر ڈیڈلاک برقرار، کسانوں کے احتجاج میں شدت

چیف جسٹس شراد بوبدے کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار ہے اور کمیٹی ہمیں رپورٹ دے سکتی ہے'۔

انہوں نے ستمبر 2020 میں جاری ہونے والے قانون پر غیر معینہ مدت کے لیے اسٹے آرڈر جاری کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کسانوں کو تحفظ دیں گے'۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اس حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ قانون کا مقصد زرعی نظام کو جدت بخشنا ہے تاکہ رسد میں حائل رکاؤٹوں کا توڑ کیا جاسکے۔

دوسری جانب کسانوں کی جانب سے اس قانون کو واپس لینے کے لیے شدید احتجاج کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ کسانوں کو اپنی فصلوں کی کم ازکم قیمت کو یقینی بنانے والے طویل عرصے جاری طریقہ کار کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کسانوں کے احتجاج میں شدت: بھارتی حکومت قوانین میں مزید تبدیلیوں پر غور کیلئے تیار

حکومت نے کہا تھا کہ طریقہ کار کو ختم کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا جبکہ اتفاق رائے کے لیے منعقدہ مذاکرات کے 8 دور بے معنی ختم ہوچکے ہیں اور دونوں فریقین ایک مرتبہ پھر اگلے ہفتے ملیں گے۔

خیال رہے کہ بھارت میں زرعی اصلاحات کے قانون کو ستمبر میں منظوری دی گئی تھی اور اس وقت سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے جس میں شدت اس وقت آئی تھی جب احتجاج کرنے والوں نے بھارتی دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کی۔

حالیہ برسوں میں خشک سالی اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے ہزاروں کسان خودکشی کرچکے ہیں۔

گزشتہ برس کے ابتدا میں قانون سازی کی گئی تھی جس کے مطابق کسانوں کو اپنی فصل ریاست کے مقرر کردہ نرخوں پر مخصوص مارکیٹس میں فروخت کرنے کے بجائے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اسے 'زراعت کے شعبے میں مکمل تبدیلی' قرار دیتے ہوئے سراہا تھا جو 'لاکھوں کسانوں' کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں کسانوں کے احتجاج میں شدت، ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائی ویز بند

تاہم پنجاب میں حکومت کرنے والی اور اپوزیشن کی اہم جماعت کانگریس نے اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس تبدیلی نے کسانوں کو بڑی کارپوریشن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔

نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے ستمبر میں پارلیمنٹ میں معمولی بحث کے بعد منظور کیے گئے ان قوانین نے زرعی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کے سیاسی طور پر بااثر کسان گروپوں کو خاص طور پر مشتعل کردیا تھا۔

ان قوانین سے چھوٹے کاشتکاروں کو خدشہ ہے کہ جب بڑے کارپوریٹ کھلاڑی مارکیٹ میں داخل ہوں گے تو انہیں قیمتوں کے حوالے سے سرکاری کی جانب سے کوئی تحفظ نہیں ملے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں