کرسی آنے جانے والی چیز ہے، نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 30 جون 2020
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ اس حملے میں بھارت ملوث ہے — فوٹو بشکریہ عمران خان/ فیس بک
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ اس حملے میں بھارت ملوث ہے — فوٹو بشکریہ عمران خان/ فیس بک

وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں اور گارڈز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ مذکورہ حملے میں بھارت ملوث ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے میں شہید ہونے والے کو خراج تحسین پیش کیا۔

اپوزیشن کا بائیکاٹ

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے قبل ہونے والی ہنگامہ آرائی کے باعث اپوزیشن اراکین نے وزیر اعظم کے خطاب کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اپوزیشن بینچیں مکمل طور پر خالی نظر آئیں۔

'اسٹاک ایکسچینج پر حملے میں بھارت ملوث ہے'

عمران خان نے کہا کہ ان لوگوں نے قربانیاں دے کر اور ہماری سیکیورٹی فورسز نے مقابلہ کر کے ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا کیونکہ بھارت نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے یہ بڑا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ دہشت گرد بہت زیادہ اسلحہ لے کر آئے تھے، ان کا ایک مقصد تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں جا کر انہیں یرغمال بناتے اور جو ایک دفعہ ممبئی میں بہت بڑی دہشت گردی ہوئی تھی، بالکل اسی طرح کا پلان کہ اسٹاک ایکسچینج میں بھی یہ وہی کرتے اور اسی طرح بے قصور لوگوں کو قتل کرتے اور عدم استحکام کی فضا بناتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ اس حملے کی منصوبہ بندی بھارت میں ہوئی، میں پچھلے دو مہینے سے کابینہ اور وزرا کو بتایا ہوا ہے کہ ہماری جتنی بھی ایجنسیز ہیں وہ ہائی الرٹ پر تھیں اور کم از کم دہشت گردی کی چار بڑی کوششوں کو ہماری ایجنسیوں نے ناکام بنا دیا جن میں سے دو اسلام آباد کے ارد گرد کی تھیں۔

اس کی پوری تیاری ہم نے کر کے رکھی ہوئی تھی لیکن میں ان شہیدوں کے ساتھ ساتھ بھرپور تیاری رکھنے پر خفیہ ایجنسیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

'کورونا کے باعث معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا'

انہوں نے بجٹ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل بجٹ تھا، ہم نے پانچ ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے تھے جو ردوبدل کے بعد 4 ہزار 900 ارب پر آ گیا، یہ ہمارا ایف بی آر کا ٹارگٹ تھا، 17 فیصد کلیکشن ہو رہی تھی جو چار سے پانچ سال میں سب سے زیادہ کلیکشن تھی۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 آیا تو ساری دنیا کی معیشتوں پر اسی طرح کے اثرات مرتب ہوئے اور ہمیں براہ راست نقصان یہ ہوا کہ نظرثانی شدہ ہدف 4 ہزار 900 ارب سے 3 ہزار 900 ارب پر آ گیا یعنی ایک ہزار ارب روپے کی کمی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی بھی کورونا کے باعث معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور میں اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ ہم نے وہ لاک ڈاؤن نہیں کیا جس کا ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔

'کورونا کا مقابلہ کرنے کا واحد حل اسمارٹ لاک ڈاؤن ہے'

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں سندھ سے مثالیں آئیں کہ سندھ میں کتنا زبردست لاک ڈاؤن ہو گیا، آپ بھی کریں، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے خودمختار ہیں اور اپنے فیصلے کر سکتے ہیں لیکن اگر میری بات سنی جاتی تو میں کبھی وہ لاک ڈاؤن نہ کرتا جو میں نے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پھر بھی کوشش کرتا رہتا کہ ہماری کنسٹرکشن چلتی رہتی، ہماری چھوٹی دکانیں، چھابڑی والے چلتے رہتے لیکن کیونکہ ہم یورپ کو دیکھ رہے تھے تو لوگوں نے یورپ کو دیکھ کر یہاں بھی لاک ڈاؤن کیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ شکر ہے کہ ہم نے دباؤ کو برداشت کیا اور ایس او پیز کے ساتھ دکانیں کاروبار وغیرہ کھولتے رہے اور اب دنیا مان گئی ہے کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ اسمارٹ لاک ڈاؤن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پہلے تھے جنہوں نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا، ہم کنفیوژ نہیں تھے بلکہ کنفیوژ وہ تھے جو کبھی پاکستان کے غریب علاقوں میں نہیں گئے، جو لوگ کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کرو وہ کبھی غریبوں کی کچی بستیوں میں نہیں گئے۔

'اب ایک اور چیلنج سامنے ہے'

عمران خان نے کورونا وائرس کے حوالے سے کہا کہ ہم بچ سکے کیونکہ ایک تو ہم نے جلدی لاک ڈاؤن کھولا اور دوسرا ثایہ نشتر اور ان کی ٹیم کو اس لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اتنے تھوڑے وقت میں اتنا زیادہ پیسہ جس شفاف طریقے سے تقسیم کیا، اس کی مثال پاکستان سمیت انفارمل معیشت والے پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اب ایک اور چیلنج آ گیا ہے کہ پہلے سے بری صورتحال سے دوچار معیشت جو بہتری کی جانب گامزن تھی، اس کے لیے ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس صورتحال کو بہتر بنانا ہے کہ وہ پیسہ جو ہمیں تعلیم، صحت، صاف پانی اور غریب کسانوں اور ہسپتالوں پر لگانا چاہیے، وہ خسارے سے دوچار حکومتی اداروں پر لگ رہا ہے، اسے روکنا ہو گا کیونکہ اس میں توانائی کا شعبہ اس ملک کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔

'ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی'

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے کا سارا قرضہ ہمیں پہلے حکومتوں سے ملا ہے، اس شعبے کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور ہم ان بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے ایک بہترین ایئر لائن تھی جس پر ہمیں فخر تھا لیکن یہ ایسے ہی اس مقام تک نہیں پہنچی بلکہ اس میں باقاعدہ مافیا بیٹھے ہوئے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ گزشتہ 11 سالوں میں 10 چیف ایگزیکٹو، پی آئی اے کے اندر سے کیسز کر کے ہٹائے گئے ہیں، دنیا کا کونسا ادارہ چل سکتا ہے جہاں 11 سالوں میں 10 چیف ایگزیکٹو ہٹائے گئے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک کرکٹ ٹیم کو تباہ کرنا ہو تو 11 سال میں اس کے 10 کپتان بدل دیں، وہ بیٹھ جائے گی، دنیا میں ایسے کوئی بھی ادارہ نہیں چل سکتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مافیا بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی کیونکہ یہ پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکی ہیں، ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 2008 میں اسٹیل مل میں 8 ارب روپے سرپلس پڑا تھا، یہ بڑا کارنامہ ہے کہ اس پر آج 250 ارب روپے کا قرضہ چڑھ چکا ہے، 9 ہزار لوگوں کو ایک مل میں رکھنے کے لیے ہم 34 ارب روپے بند اسٹیل مل میں تنخواہ کی مد میں دے چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے کارٹیل بنے ہوئے ہیں جیسے کہ شوگر میں گٹھ جوڑ ہے، اس میں انکوائری سے یہی چیز سامنے آئی ہے کہ تھوڑے سے لوگ پیسہ بنا رہے ہیں، اس ملک کا مستقبل یہی ہے کہ ہم اسے انڈسٹرلائز کریں، اپنے کاروبار اور زراعت کو فروغ دیں۔

'نواز، زرداری شوگر ملوں کے ذریعے بلیک کا پیسہ وائٹ ہوتا ہے'

انہوں نے کہا کہ 4 سال میں 29 ارب کی سبسڈی لے کر شوگر کی صنعت 9 ارب کا ٹیکس دیتی ہے، لوگوں کو مہنگی چینی مل رہی ہے اور جن لوگوں کو غلط کاموں سے روکنا تھا، وہ سارے ان سے ملے ہوئے تھے لیکن ہمارا مشن ہے کہ ہم ان سارے کارٹیل کو قانون کرکے نیچے لے کر آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی بھی شوگر ملز ہیں، نواز شریف کی بھی شوگر ملز ہیں اور اگر آپ غور کریں تو ان شوگر ملوں کے ذریعے بلیک کا پیسہ وائٹ ہوتا ہے، یہ ایک جگہ نہیں، ہر جگہ ہے۔

'(ن) لیگ لبرلی کرپٹ ہے'

اس موقع پر انہوں نے قائم مقام قائد حزب اختلاف خواجہ آصف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے عاشق رسول ﷺ بن کر طنز کیا لیکن جب یہ وزیر خارجہ تھے تو واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان سے سوال کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں فرق کیا تو یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم لبرل ہیں اور یہ پی ٹی آئی والے دینی جماعت کے ساتھ ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ لبرل ہیں لیکن یہ لبرلی کرپٹ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جتنا نقصان اس ملک کو اس کی لیڈرشپ نے پہنچایا اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے کوئی دشمن نہیں پہنچا سکتا تھا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ میں 1988 سے یہ سن رہا ہوں کہ جو مغرب جاتا ہے وہ امریکیوں سے یہی کہتا ہے کہ مجھے بچا لو، میں آپ کی طرح لبرل اور ماڈریٹ ہوں، باقی اسارے اس ملک میں انتہا پسند ہیں، اگر مجھے نہ بچایا تو انتہا پسند پاکستابن پر قبضہ کر لیں گے، یہ سارے وہاں جا کر لبرل بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا ایمان نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ جلدی سے کسی دن حکومت چلی جائے، پہلے دن سے انہوں نے مجھے تقریر نہیں کرنے دی اور کہنے لگے کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے۔

'مسلم لیگ (ن) کا کوئی دین ایمان نہیں'

انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب 10 سال سے یہ دونوں حکومت کر رہے تھے تو انہیں پتا نہیں چل رہا تھا کہ 6 ٹریلین سے ملک کا قرضہ 30 ٹریلین پر جا رہا تھا تب انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ حکومت ناکام ہو رہی ہے، تب تو اکٹھا ہو جاتے تھے بچانے کے لیے، کوئی اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے، کوئی کہتا ہے دینی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خیر مسلم لیگ (ن) کا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، کبھی جہادیوں سے بھی پیسے لے لیں گے اور انگلینڈ امریکا میں لبرل بھی بن جائیں گے، ان کا کوئی دین ایمان تو ہے نہیں'۔

'کرسی آنی جانی چیز ہے'

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کرسی بڑی مضبوط ہے، کوئی مضبوط نہیں ہوتا، اللہ پر ہوتا ہے، آپ آج ہیں، کل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، اپنے سارے خرچ برداشت کرتا ہوں سوائے سفر اور سیکیورٹی کے جو میں برداشت نہیں کر سکتا، اس کے علاوہ میرے سارے خرچ سب کچھ اس لیے خود برداشت کرتا ہوں تاکہ مجھے کبھی فکر نہ ہو اپنی کرسی چھوڑنے کی، کبھی مجھے اپنے اصولوں اور نظریے پر سمجھوتہ نہ کرنا پڑے'۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نوجوان پارلیمانی اراکین سے کہتا ہوں کہ آپ کو کبھی بھی اپنی کرسی چھوڑنے سے گھبرانا نہیں چاہیے، کبھی ڈر نہیں ہونا چاہیے، کرسی آنی جانی چیز ہے لیکن نظریہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے، جب تک ہم اپنے نظریے پر کھڑے رہیں گے، اونچ نیچ آئے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب آپ کو کبھی جدوجہد کے بغیر کسی پارٹی کا چیئرمین بنا دیتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ 'بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے'، یعنی آپ نے کبھی جدوجہد ہی نہیں کی، آپ لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں پتا کہ غریب بستیوں میں لوگ رہتے کیسے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت کو اس وقت تک کوئی نہیں گرا سکتا جب تک ہم اپنے نظریے پر کھڑے ہوئے ہیں، جنرل مشرف کی حکومت اتنی بری نہیں تھی لیکن انہوں نے جو این آر او دیا اس کی وجہ سے ملک آج یہاں کھڑا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'یہ لوگ یہی چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح سے عمران پر دباؤ ڈلوا کے مائنس ون کرا کے یہ بچ جائیں گے، انہیں نہیں پتا کہ یہ مائنس ون ہو بھی گیا تو باقی بھی کوئی ان کو نہیں چھوڑے گا'۔

حماد اظہر کا قومی اسمبلی میں خطاب

وزیر صنعت حماد اظہر نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منسٹری آف انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن کی بات ہوئی آپ نے یہاں 35 ارب روپے کیوں رکھے ہیں تو یہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے حوالے سے ہیں کہ جب رمضان پیکج آیا، پھر کووڈ کا پیکج آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایشیا پیٹرولیم کا ذکر کیا گیا لیکن انہی پارٹیوں کے پرانے ادوار میں اس کمپنی سے معاہدہ کیا گیا تھا اور اس معاہدے کے نتیجے میں ان کا ایک یا ڈیڑھ ارب کا دعویٰ نکلا تھا وہ بھی ہم نے ریگولر سپلیمنٹری کے بجائے ٹیکنیکل سپلیمنٹری کے ذریعے اس کلیم کو سیٹل کیا۔

حماد اظہر نے کہا کہ بات ہوئی تھی کہ آپ نے تو 1200 ارب کا پیکج کا کہا تھا لیکن اس میں تو چار پانچ سو ارب کا پیکج نظر آ رہا ہے آپ نے کورونا کی مد میں خرچ کیا تو جو غیرخرچ شدہ رقم ہے اسے ہم اسٹیت بینک آف پاکستان میں کورونا فنڈ کے نام سے علیحدہ رکھیں گے اور وہاں سے یہ رقم نکلوائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کی شفافیت اور توسیع کی بات ہوئی تو اس پروگرام کو بڑھایا گیا ہے، 40 لاکھ سے اگر ہم ایک کروڑ 60 لاکھ روپے پر چلے گئے ہیں تو یہ توسیع ہی ہے اور اس کی شفافیت پر پوری دنیا بات کر رہی ہے۔

وزیر صنعت نے این ایف سی کے پیسے بچانے کے حوالے سے کہا کہ این ایف سی کے پیسے روکنے کا ہمارے پاس آئینی طور پر کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ پیسے روکے جاتے ہیں لیکن اب یہ لوگ اپنے صوبوں سے جا کر کہیں کہ پروونشل فنانشل فنڈز کا بھی اجرا کردیں ، آپ جس جرات سے این ایف سی کی بات کرتے ہیں اتنا ہی ضلعوں کے درمیان تقسیم کو بہتر لانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر اس خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جتنا ٹیکس اکٹھا کرتا ہے تو اس کا جو حصہ واپس ایف بی آر پر لگایا جاتا ہے وہ ہمارے خطے میں سب سے کم ہے اور اگر ہم نے اصلاحات کرنی ہیں تو ہمیں ایف بی آر میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ مرتضیٰ جاوید عباسی نے کا کہنا تھا کہ ہم سے کہا گیا کہ سپلیمنٹری بجٹ کو 50 فیصد سے کم کریں اور پہلے سال میں ہم نے جس سطح پر مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر گئی تھی اس سے 50 فیصد سے بھی زائد کم کیا تھا اور اس سال اگر کورونا نہ آتا تو ہم شاید اس سے بھی زیادہ کم کر دیتے، ہم نے کورونا اور پیٹرولیم میں کرنسی ایکسچینج کے علاوہ کوئی ریگولر سپلیمنٹری گرانٹ تو دی ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول لیوی پر بات ہوئی کہ آپ نے اس کو 30فیصد پر لگا دیا ہے لیکن ہم نے 30فیصد نہیں بلکہ 30روپے پر لگا دیا ہے، یہ کہتے ہیں کہ یہ غیر آئینی ہے لیکن میں ان کو یاد دلانا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) کے آخری بجٹ میں پیٹرولیم بجٹ پر 30روپے کی لیوی سیل کی گئی تھی اور ہم نے اس سیلنگ کو نہیں چھیڑا۔

انہوں نے پیٹرول کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب قیمت نیچے گئی تھی تو پی ڈی ایل 30روپے تھا اور سیلز ٹیکس 17فصد تھا اور آج قیمت اوپر جانے پر بھی یہ شرح برقرار ہے، قیمت حکومت کی جانب سے ٹیکسز لگانے کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی منڈی میں قیمت دگنی ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات سامنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بجٹ کی ایک اہم چیز یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے آخری سال میں 600 ارب سپلیمنٹری بجٹ پر خرچ ہوا جس میں 415 ارب ریگولر سپلیمنٹری تھا، یہ ٹیکنیکل سپلیمنٹری نہیں تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ہم اس کو اپنے پہلے سال میں 600 سے 200 ارب پر لے کر آئے اور اس کے بعد اس سال سوائے کورونا اور پیٹرولیم کے کرنسی ایڈجسٹمنٹ میں دیے گئے پیسوں کے کئی ریگولر سپلیمنٹری ہم نے اس سال میں پاس نہیں کیے کیونکہ پچھلے سال کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ وبا آئے گی۔

نوید قمر اور علی زیدی آمنے سامنے

اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اور تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی اور پیپلز پارٹی کے نوید قمر آمنے سامنے آ گئے۔

علی زیدی نے تقریر شروع کی تو سپلیمنٹری گرانڈس کے ایجنڈے پر بات کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

علی زیدی ایوان میں عذیر بلوچ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ لے کر آئے تھے اور انہوں نے ایک ایک فرد کا نام لے کر بتایا کہ اس میں کون کون ملوث تھا۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے کچھ اراکین غصے میں آ گئے لیکن نوید قمر ان اراکین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کر رہے تھے اور اسی وجہ سے اسپیکر نے انہیں کہا کہ آپ بات کریں۔

نوید قمر کا کہنا تھا کہ یہ رویہ مناسب نہیں ہے اور اگر عبدالقادر پٹیل کا نام لیا ہے تو وہ ہی اس کی وضاحت کریں گے۔

قومی اسمبلی میں پورٹس اینڈ شپنگ کے وزیر علی زیدی کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ یہ جو منسٹر آف پورٹس اینڈ شپنگ کا رویہ رہا ہے تو کیا یہ اس ہاؤس کی عزت بڑھا رہے ہیں۔

اس موقع پر حکومتی بینچز پر ان کی گفتگو کے دوران مداخلت کی گئی تو نوید قمر نے کہا کہ ٹھیک ہے ناں بھائی، پھر لڑائی کرتا ہوں، میں بھی کوٹ اتارتا ہوں ، تو آؤ پھر لڑ لیتے ہیں۔

اس موقع پر اپوزیشن اراکین اپنی بینچوں پر کھڑے ہو گئے اور شدید احتجاج کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں