کورونا وائرس: ڈریپ نے پلازما تھراپی، وینٹیلیٹرز کے کلینکل ٹرائلز کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2020
وینٹیلیٹرز کو استعمال کرنے سے پہلے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے—تصویر: شٹر اسٹاک
وینٹیلیٹرز کو استعمال کرنے سے پہلے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے—تصویر: شٹر اسٹاک

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ڈاکٹر ظفر مرزا کی ہدایت پر کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے کلوروکوئن کے خام مال کی مقامی طور پر تیار کرنے کی اجازت دے دی۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ڈریپ نے کووِڈ-19 کے علاج کے لیے پلازما تھراپی اور پاکستان میں تیار ہونیوالے وینٹیلیٹرز کے کلینیکل ٹرائلز کی بھی اجازت دے دی ہے۔

واضح رہے کہ پلازما تھراپی کے لیے کووِڈ 19 کا شکار ہو کر صحت یاب ہونے والے پہلے مریض یحیٰ جعفری کا بلڈ پلازما بھی حاصل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان انجینئرنگ کونسل کے تیار کردہ وینٹیلیٹرز کو استعمال کرنے سے پہلے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے معجزاتی علاج کا پورا سچ

بیان میں مزید بتایا گیا کہ ڈریپ کی جانب سے 50 سے زائد کمپنیوں کو 3 ماہ کے لیے ہینڈ سسینیٹائزرز بنانے کی بھی منظوری دی گئی۔

ڈریپ نے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق سینیٹائزر بنانے کی اجازت دی جس کے تحٹ سینیٹائزر میں 80 فیصد الکوحل (ایتھانول)، 1.45 فیصد گلائیسرول اور 0.125 فیصد ہائیڈروجن پروکسائیڈ شامل ہو۔

واضح رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے باعث سیناٹیزرز کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈریپ نے کچھ دن پہلے نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ لائسنس یافتہ کمپنیاں عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق معیاری ہینڈ سیناٹیزرز تیار کریں گی۔

مزید پڑھیں: ارب پتی شخص کا وینڈنگ مشینز کے ذریعے ایک کروڑ فیس ماسک بانٹنے کا منصوبہ

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا کہ حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بھر پور عملی اقدامات کو یقینی بنارہی ہے۔

خیال رہے کہ ملک میں کورونا وائرس سے 4 ہزار 317 افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے 572 صحتیاب جبکہ 63 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

پلازما تھراپی کیا ہے؟

پلازما سے علاج کے لیے کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے شخص سے خون حاصل کر کے اس میں سے علیحدہ کیے گئے پلازما کو تشویشناک مریض میں منتقل کیا جاتا ہے۔

پلازما دراصل خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جو خونی خلیے کو علیحدہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے، پلازما میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں۔

یوں اینٹی باڈیز کے حامل پلازما کی منتقلی سے بیمار شخص کو مرض لڑنے کے لیے 'غیر فعال مدافعت' فراہم ہوتی ہے، تاہم غیر فعال مدافعتی عمل عام طور پر چند ہفتے یا مہنیوں تک ہی اثر انگیز ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کووڈ 19 کے شکار افراد کس وقت اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں؟

اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جو بھی فرد پلازما عطیہ کررہا ہو اس سے پہلے اس کے کچھ ٹیسٹ ہونا ضروری ہیں، جیسے کورونا وائرس کی تشخیص ہونا اور پلازما عطیے کرتے وقت کورونا وائرس اور دیگر سانس کے وائرسوں، اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی وائرس، ہیپاٹائٹس سی وائرس، ایچ آئی وی اور آتشک کے مرض کا ٹیسٹ منفی آنا لازمی ہے۔

پلازما عطیہ کرنے والوں کا کم از کم 10 دنوں تک کورونا وائرس کے مخصوص اینٹی باڈیز کی وافر مقدار کے ساتھ ہر طرح سے صحتمند ہونا ضروری ہے۔

کورونا وائرس کے علاوہ دیگر امراض کے لیے پلازما کی منتقلی سے متعلق جو گزشتہ تحقیقیں ہوئیں ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ عمل یقینی طور پر رسک سے عاری نہیں ہے۔

چنانچہ ہوسکتا ہے کہ اس کے باعث مریض کو سائیڈ افیکٹس کا سامنا کرنا پڑے، جن میں سنگین الرجی ری ایکشن، پھیپھڑوں کی انجری اور دیگر قلبی بیماریوں کے شکار مریضوں میں دورانِ خون میں زیادتی وغیرہ شامل ہیں۔

پلازما تھراپی مستقبل میں تو امید افزا نتائج دے سکتی ہے لیکن اس وقت یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ ہم غیر یقینی کی صورتحال سے نبردآزما ہیں، کنویلیسنٹ سیرم کی منتقلی تجرباتی طریقہ علاج ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں