بامعنی مذاکرات سے قبل طالبان کے حملوں میں نمایاں کمی دیکھنا چاہتا ہوں، ٹرمپ

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2020
طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل عسکری کارروائیوں میں کمی لانے کو تیار ہیں—فوٹو: رائٹرز
طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل عسکری کارروائیوں میں کمی لانے کو تیار ہیں—فوٹو: رائٹرز

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان ہم منصب اشرف غنی سے کہا ہے کہ وہ 'معنیٰ خیز' مذاکرات کے آغاز سے قبل طالبان کے حملوں میں 'غیر معمولی' کمی دیکھنا چاہتے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کی سائیڈ لائن ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے صدور نے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

مزید پڑھیں: ’امریکا، طالبان سے مذاکرات کا دوبارہ آغاز جلد کرے گا‘

اس ضمن میں وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ 'ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دیا کہ طالبان کی جانب سے حملوں میں نمایاں اور دیرپا کمی کی ضرورت ہے جو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں معنی خیز گفت و شنید کو آسان بنائے گی'۔

طالبان کے چیف ترجمان نے رواں ہفتے کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا معاہدہ رواں ماہ متوقع ہے اور طالبان معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل عسکری کارروائیوں میں کمی لانے کو تیار ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے طالبان سے مذاکرات بحال، قطر میں مذاکرات کا پہلا دور

امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔

بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔

ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی

لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔

گزشتہ برس نومبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مغربی تہوار تھینکس گیونگ کے موقع پر اچانک افغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ امریکا کی طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے لیکن وہ سیز فائر نہیں چاہتے تھے مگر اب وہ بھی جنگ بندی چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اب کام ہوجائے گا‘۔

اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے 16 جنوری کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ طالبان نے افغانستان میں پرتشدد حملوں میں کمی پر 'آمادگی' کا اظہار کردیا۔

شاہ محمود قریشی کے مذکورہ بیان کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا کہ امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات پر مبنی نئی پیش رفت کے نتائج قریب ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں