بھارت: متنازع شہریت قانون کےخلاف پُرتشدد مظاہرے جاری، 14 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2019
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مظاہرین کی جانب سے نذر آتش کی گئی گاڑی سے شعلے بلند ہو رہے ہیں— فوٹو: اے پی
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مظاہرین کی جانب سے نذر آتش کی گئی گاڑی سے شعلے بلند ہو رہے ہیں— فوٹو: اے پی

بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا جہاں مشتعل مظاہرین پر پولیس کے تشدد اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔

بھارت کے اکثر بڑے شہروں میں مظاہروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے جہاں متنازع قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک 14 افراد ہلاک اور 1200 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں 3 شہری ہلاک

بھارت بھر میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں درالحکومت دہلی میں نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد میں مظاہرے کیے گئے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سمیت دیگر مذاہب کے افراد بھی شریک ہوئے۔

دہلی میں احتجاج پرامن انداز میں شروع ہوا جس کے بعد پولیس نے پارلیمنٹ جانے والے 100 سے زائد مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک کر ان پر لاٹھی چارج کیا۔

مظاہرین دہلی کی جامع مسجد کے باہر جمع ہو رہے ہیں— فوٹو: اے پی
مظاہرین دہلی کی جامع مسجد کے باہر جمع ہو رہے ہیں— فوٹو: اے پی

نماز جمعہ کے بعد ہزاروں مظاہرین دہلی کی جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور بھارتی پرچم لہراتے ہوئے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مظاہرین نے مودی ہٹاؤ کے بھی نعرے لگائے۔

کسی بھی قسم کی کشیدہ صورتحال سے بچنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہکاروں کو مسجد اور اطراف کے علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا اور ان مظاہرین میں سے اکثریت کے ہاتھ میں بھارتیہ آئین کا مسودہ تھا۔

مسجد کے باہر حکومت مخالف نعرے لگانے والے 42 سالہ بھارتی شہری شمیم قریشی نے کہا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا، اس وقت تک ہم جدوجہد کریں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت کے نئے قانون پر عملدرآمد روکنے کی اپیلیں مسترد کردیں

یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت میں ترمیم سے متعلق قانون کے خلاف درخواستیں مسترد کردی تھیں، جس کے باعث ملک میں جاری مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔

مظاہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کانگریس کی خواتین نے جمعہ کو نئی دہلی میں امیت شاہ کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کیا۔

نماز جمعہ کے بعد شہری حکومت کے خلاف مظاہرے میں ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے— فوٹو: اے پی
نماز جمعہ کے بعد شہری حکومت کے خلاف مظاہرے میں ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے— فوٹو: اے پی

بھارتی میڈیا کے مطابق اترپردیش کے تقریباً 12 اضلاع میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی جبکہ گورکھپور، فیروز آباد ، کانپور اور ہاپور میں بھی مظاہرے اور جھڑپیں ہوئیں۔

گجرات کے شہر احمد آباد میں قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے کانگریس کے کونسلر شہزاد خان پٹھام سمیت 49 افراد کو پولیس نے گرفتار کر لیا جبکہ 5 ہزار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے جھڑپوں اور مظاہروں کا مرکز رہنے والی نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے باہر بھی 2 ہزار سے زائد طلبہ نے احتجاج کیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون سے بھارت کا سیکولر تشخص بُری طرح مجروح ہوگا۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت بل کےخلاف احتجاج، کرفیو نافذ، درجنوں گرفتار

ان جھڑپوں اور مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ ہفتے اسلامی یونیورسٹیز سے ہوا تھا جس کا دائرہ بعد ازاں ملک بھر میں پھیل گیا۔

اب تک مظاہروں میں 14 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے 5 افراد آسام اور دو ریاست کرناٹکا میں جان کی بازی ہار گئے جبکہ جمعہ کو احتجاج اور جھڑپوں میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 4 افراد کی لاشیں میرٹھ کے ہسپتال میں چار لاشیں لانے کی تصدیق ہو گئی ہے۔

جہاں ایک طبقہ اسے مسلمان مخالف بل تصور کرتا ہے وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت دیگر ہندو جماعتوں کا ماننا ہے کہ اس قانون کے نتیجے میں بھارت آنے والے مہاجرین کی حوصلہ افزائی ہوگی جہاں ملک میں پہلے موجود سوا ارب سے زائد آبادی کو پہلے ہی بنیادی سہولیات تک کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے۔

لکھنو میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی غیرمتوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے چوکس کھڑے ہیں— فوٹو: اے پی
لکھنو میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی غیرمتوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے چوکس کھڑے ہیں— فوٹو: اے پی

خیال رہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کو آج آٹھواں روز ہے جن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مزید شدت آئی اور ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا دائرہ کار ہر گزرتے دن بڑھنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس بل کی منظوری کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر گیا تھا جس کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں احتجاج کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی اہم شہروں میں انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی قانون ہے کیا؟

شہریت ترمیمی بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کرنا ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

دارالحکومت نئی دہلی میں ہزاروں افراد نے قانون کے خلاف احتجاج کیا— فوٹو: رائٹرز
دارالحکومت نئی دہلی میں ہزاروں افراد نے قانون کے خلاف احتجاج کیا— فوٹو: رائٹرز

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں