الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی سے پی ٹی آئی کا واک آؤٹ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے غیرملکی فنڈنگ کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل ثقلین حیدر پر اعتراض اٹھانے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ٹیم نے اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق غیرملکی فنڈنگ کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل ثقلین حیدر پی ٹی آئی کی نمائندگی کررہے تھے۔
مزیدپڑھیں: غیر ملکی فنڈنگ کیس: تحریک انصاف کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سابق رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے 2014 میں ای سی پی میں فارن فنڈنگ کیس دائر کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے استعمال ہونے والے غیر ملکی اکاؤنٹس کو ای سی پی میں جمع سالانہ آڈٹ رپورٹس سے چھپایا گیا۔
اسکروٹنی کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں ای سی پی نے 10 اکتوبر کو پی ٹی آئی کے اعتراض مسترد کردیے تھے۔
کمیشن کی جانب سے ہدایت کی گئی تھی کہ درخواست گزار اور پی ٹی آئی 14 اکتوبر کو اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اسکروٹنی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کریں۔
لیکن 14 اکتوبر کو پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر ملتوی کی درخواست پیش کی اور موقف اختیار کیا کہ ان کی فنانس ٹیم غیرملکی دورے پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کی نئی کمیٹی بنانے کی ہدایت
کمیشن کے آرڈر کے مطابق ثقلین حیدر ڈپٹی اٹارنی جنرل تعینات ہوچکے ہیں اس لیے وہ ریاست کے مفاد کے خلاف کسی سیاسی جماعت کا مقدمہ لڑنے کا حق نہیں رکھتے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے وکیل کو ریاست اور سیاسی جماعت کے فرق کو سمجھنا چاہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے بعد انہیں سیاسی جماعت کے مقابلے میں ریاست کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے تفصیلی آرڈر میں وکیل ثقلین حیدر کی جانب سے پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا جبکہ وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی تعینات ہیں۔
اس ضمن میں پی ٹی آئی کے فنانس سیکریٹری اظہر طارق سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر ثقلین حیدر کارروائی سے خود کو علیحدہ کرتے ہیں تو نئے قونصل کی تعیناتی تک اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کررہی، 'ہم ہر وہ چیز فراہم کریں گے جس کی ضرورت ہوگی، ہم اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں'۔
مزیدپڑھیں: غیر ملکی فنڈنگ کیس: تحریک انصاف تحقیقاتی کمیشن کے قیام پر آمادہ
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ہر پیرا وائس جواب جمع کردیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو اکاونٹس کی تفصیلات بینک سے حاصل کرنی ہے جبکہ ای سی پی نے کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی جو انہیں بینک سے ملی ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اکتوبر 2005 میں ایک رٹ فائل کی گئی جس میں الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی سے روکنے کی درخواست کی گئی جس کے باعث مقدمہ کی سماعت ایک سال تک زیر التوا رہی۔
جنوری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کا جائزہ لیا اور ای سی پی کو دوبارہ جائرہ لینے کی ہدایت کی۔
2017میں ای سی پی کے فل بینچ نے کیس کا مکمل جائزہ لیا اور بتایا کہ پی ٹی آئی فنڈنگ سے متعلق شواہد دینے میں ناکام رہی۔
مزیدپڑھیں: ’عمران خان غیر ملکی فنڈنگ سے پارٹی چلارہے ہیں‘
تاہم بینچ کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ پی ٹی آئی کے وکیل آڈٹ رپورٹ کی جانچ پڑتال کے دوران بین الاقوامی فنڈنگ کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر رہے تھے۔
مارچ 2018 کو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
غیر ملکی فنڈنگ کیس
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان سے پارٹی میں اندرونی کرپشن اور سیاسی فنڈنگ سے متعلق قوانین کے غلط استعمال پر اختلاف کے بعد پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے 2014 میں ای سی پی میں غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق کیس دائر کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے سابق رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے 2014 میں ای سی پی میں فارن فنڈنگ کیس دائر کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کی نئی کمیٹی بنانے کی ہدایت
بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار ہوگئی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔
جس کے بعد فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔
درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے اور اس وجہ سے وہ پی ٹی آئی کے کھاتوں سے متعلق سوالات کا حق کھو بیٹھے ہیں۔
علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔