نیپرا میں تقرریوں کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف
اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے اس بل کی مخالفت کردی جس میں تجویز دی گئی تھی کہ وفاقی حکومت کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین اور اراکین کے تقرر کے لیے بااختیار ہونا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹ کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کے قانون سازوں کا یہ موقف تھا کہ اراکین کو صوبوں سے نامزد ہونا چاہیے کیونکہ بصورت دیگر تمام (چار) اراکین ایک صوبے سے مقرر ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں قائد ایوان سید شبلی فراز کی جانب سے 13 مئی کو پیدواری ضابطے، ٹرانسمیشن اور بجلی کی تقسیم (ترمیمی) بل 2019 پیش کیا گیا تھا جسے بعد ازاں کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: نیپرا کی بجلی کے نرخ میں 2 روپے بڑھانے کی منظوری
کمیٹی کو بل پر بریفنگ دیتے ہوئے شبلی فراز نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ غیر متعلقہ شخصیات نیپرا کے اراکین کے طور پر نامزد کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ اراکین کے پاس اس عہدے کے لیے تجربہ ہی نہیں تھا، میں نے تجویز دی تھی کہ چیئرمین اور اراکین کو وفاقی حکومت کی جانب سے نامزد کرنا چاہیے اور متعلقہ فیلڈ میں رکن بننے کے لیے کم از کم تجربے کو 12 سے کم کرکے 10 سال کردینا چاہیے‘۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان (اراکین) کی متعلقہ فیلڈ میں تعلیم ہونی چاہیے اور اراکین کو ممبر فنانس، ممبر ٹیکنکل، میمبر قانون اور میمبر ایڈمن کے طور پر مقرر کرنا چاہیے جبکہ تقرر کے لیے کم از کم عمر 45 سال ہونی چاہیے۔
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ قابلیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے لیکن نیپرا میں تمام صوبوں کو نمائندگی دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس بل کی وجہ سے تمام 4 اراکین کا ایک صوبے سے تقرر ہوسکتا ہے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر تمام صوبوں کی نمائندگی نہیں ہوگی تو اتھارٹی غیرفعال ہوجائے گی‘۔
دوران اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر روبینہ خالد اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر اشوک کمار نے جاوید عباسی کی بات سے اتفاق کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر توانائی کا بجلی اور گیس مہنگی کرنے کا اعلان
علاوہ ازیں اجلاس کے بعد شبلی فراز نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے توانائی کے شعبے میں کام کے دوران یہ دیکھا تھا کہ نیپرا میں اراکین کے تقرر میں کوئی میرٹ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے بل کو اس لیے پیش کیا تاکہ نیپرا بھی سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی طرح ایک ریگولیٹری ادارہ بن سکے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ یہاں (نیپرا میں) دوستوں کو بطور اراکیں تقرر کیا جاتا جبکہ انہیں نیپرا کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا اور وہ تمام فیصلوں کے لیے تیسرے درجے کے ارکان پر انحصار کرتے ہیں۔