’بھارت ملکِ غیر تو بن گیا، مگر کبھی اجنبی نہیں رہا‘
ہندوستانیوں کی جس نسل کو آپ جانتے تھے وہ نسل اب مرچکی ہے لیکن اس کی یادیں آپ کے ذہن میں اگر ترو تازہ ہوں تو یہ احساس اب بھی زندہ رہتا ہے کہ آپ ماضی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ناول نگار ایل پی ہارٹلے نے ایک بار کہا تھا کہ، ’ماضی ایک ملکِ غیر ہے، جہاں ان کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں‘۔ مجھ سمیت کئی معقول سوچ رکھنے والے ہندوستانیوں کو وہ ہندوستان یاد آتا ہے جو اب ایک الگ ملک بن چکا ہے، جہاں کبھی سوچنے کا انداز اور کام کرنے کے طور طریقے بالکل مختلف ہوا کرتے تھے۔
ستمبر 1978ء میں پہلی بار میرا ہندوستان جانا ہوا تھا جو پہلے سے ہی ملکِ غیر تھا۔ ویزا کا ملنا تقریباً ناممکن تھا۔ ہندوستان ملکِ غیر تو تھا مگر اجنبی نہ تھا۔ 1960ء کی دہائی میں جب میں لندن میں زیرِ تعلیم تھا تو ان دنوں سے ہی میں اس کی تاریخ، ثقافت، سیاست، ادب، موسیقی اور مذہبی تنوع سے واقف تھا۔
اس آزادانہ غیر سیاسی ماحول میں، مَیں نے منی ایچر پینٹنگز کے ذریعے تاریخِ ہندوستان اور ہندوستانی مذاہب اور فلسفے کا مطالعہ شروع کیا۔ یہ دلچسپی سب سے پہلے مجھے وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم، برٹش میوزیم اور اس کے بعد انڈیا آفس لائبریری اینڈ ریکارڈز کی طرف کھینچ لائی۔ جبکہ ہندوستانی مذاہب اور فلسفے میں دلچسپی نے مجھے اپنیشد، بھگود گیتا اور برہما سوترا پر کیے جانے والے ڈاکٹر ایس رادھا کرشنا کے کام سے متعارف کروایا، اس کے بعد ونوبھا بھاو کے گیتا پر تبصروں سے لے کر موہن داس کرم چند گاندھی کی اپنی ذات تک محدود سچ کے ساتھ تجربات اور پھر خوشونت سنگھ کی تصنیف سیکرڈ رائٹنگز آف سکھس سے روشناس کروایا۔
میں نے ڈاکٹر رادھا کرشن کو صدرِ ہندوستان بنتے ہوئے ان کا عروج دیکھا۔ انہیں لندن میں واقع انڈیا ہاؤس (ان دنوں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں فرق کرنا بہت زیادہ مشکل ہوا کرتا تھا) میں منعقدہ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے سنا، اور پھر میں نے ان کا اس وقت زوال دیکھا جب انہوں نے وزیرِاعظم اندرا گاندھی کی طرزِ حکمرانی پر تنقید کی اور اندرا گاندھی نے انہیں دوسری بار صدر بننے سے روک دیا۔
1981ء میں میری ملاقات اندرا گاندھی سے ہوئی، یعنی یہ ملاقات ان کی جانب سے بنگلہ دیش کی دایہ کا کردار ادا کرنے کے ایک دہائی بعد ہوئی تھی۔ انہوں نے لوک سبھا میں موجود اپنے دفتر میں مجھ جیسے ایک ناچیز پاکستانی کے استقبال کے لیے وقت نکالا اور میرا تعارف اپنے بیٹے راجیو گاندھی سے کروایا۔
اِندر کے. گجرال سے میری دوستی ان دنوں سے قائم تھی جب وہ رکنِ اسمبلی تھے، جس کے بعد انہوں نے وزیر امورِ خارجہ کا قلمدان سنبھالا، پھر بعدازاں وزیرِاعظم بنے اور آخر میں ایک اسٹیٹس مین کا درجہ حاصل کیا۔ میں نے 1999ء میں اٹل بہاری واجپائی کی جانب سے قلعہ لاہور اور گورنر ہاؤس میں کی جانے والی ان دونوں مشہور تقاریر کو براہِ راست سنا، اور چند برسوں بعد نئی دہلی میں ان کے ساتھ اسٹیج پر ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ جب انہوں نے لاہور سے میرے تعلق کو بھانپ لیا تو انہوں نے لاہور بس یاترا کی یادوں کو باریک سے باریک تفصیلات کے ساتھ بڑے ہی خوبصورت انداز میں تازہ کیا۔
ہندوستانی لکھاریوں میں ممتاز مقام رکھنے والے ملک راج آنند نے میرا جب استقبال کیا تو اس وقت ہم دونوں پلاسٹک کی سلوٹوں سے بھری ایک چادر تلے ممبئی کی مون سون بارش سے خود کو بھیگنے سے بچا رہے تھے۔
وکیل کارل کھنڈالاوالا نے ممبئی میں وورلی سی فیس میں واقع اپنے ہوادار گھر پر میری میزبانی کی۔ انہوں نے اندرا گاندھی کے خلاف اختیار کا غلط استعمال کرنے پر استغاثہ کیس لڑا تھا۔ ان کی اس سے بھی زیادہ یاد رکھنے کے قابل ان منی ایچر پینٹنگز اور چول زمانے کی کانسی کے نوادرات کے شعبے میں تحقیق ہے، جن کی وہ ایک زبردست کلیشن بھی رکھتے تھے۔ انڈین سول سروسز افسر ڈاکٹر ایم ایس رندھاوا نے بطور چیف کمشنر چندی گڑھ کو تخلیق کیا اور بطور نباتات دان شہر کو خوبصورت بنایا۔ وہ دُور بسنے والے میرے ایک استاد بن گئے، جنہوں نے مجھے چندی گڑھ، لندن اور لاہور کے درمیان سفر کرنے والے خطوط کے ذریعے علم دیا۔
میں نے ماہر موسیقاروں کو آفاقی دھنیں بجاتے ہوئے سنا۔ استاد روی شنکر کو ستار پر، استاد علی اکبر خان کو سرود پر اور ان کے ہمراہ استاد اللہ رکھا کو تبلے پر دھنیں پیش کرتے دیکھا اور سنا۔
میں نے بالاسرسوتی کو اپنے بھرت ناٹیم سے دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں کو رقص کی زبان دیتے ہوئے دیکھا۔ آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کرنے والے ڈوم موریس (جنہوں نے محض 19 برس کی عمر میں ہارتھورڈن پرائز جیتا تھا) کی تخلیقی صلاحیت الکحل کی سونامی میں غرق ہونے سے قبل مجھے ان کی شاعری انہی کی زبانی سننے کا موقع مل چکا ہے۔ میں دو سب سے زیادہ پاکستان کے حامی ہندوستانیوں خوشونت سنگھ اور کلدیب نائر کی جانب سے ہونے والے جذبات (جس کو صرف موت نے ہی لگام دی) کے بھرپور اظہار کو سن چکا ہوں۔
یہ تمام لوگ جاچکے ہیں، سب کے سب۔ وہ ہمارے مشترکہ ماضی میں جیے۔ وہ ہمارا منقسم مستقبل کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی تعلقات ٹھیک ایسے ہی ہیں جیسے اجتماع ضدین کی میٹھی گولی کھانے کے بعد منہ میں کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے۔ مصنفین اور تجزیہ نگار کبھی بھی اسے اپنا موضوع بنانے سے نہیں تھکے، کلدیپ نائر نے ڈسٹینٹ نیبرز لکھی، ڈینس ککس نے اسٹرینج ڈیموکریسز لکھی، اور نکھل چکرورتی نے آرمڈ پیس لکھی۔
البتہ وزیراعظم مودی کی حکومت ان تعلقات کو ایک مختلف جہت پر لے گئی ہے۔ ’ہندوستانی مسلمان‘ اب تو کسی شخص کے تعارف کا حصہ ہی نہیں رہا، بلکہ یہ اب ایک زہریلا الزام بن چکا ہے۔ ان کی بی جے پی کی نظر میں یہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ کوئی ایک ہی شخص ہندوستانی اور مسلمان دونوں ایک ساتھ نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے بی جے پی کا کہنا ہے کہ اگر ایک ہندوستانی مسلمان ہندوستانی نہیں ہے تو اس طرح ظاہر سی بات ہے کہ وہ پاکستانی ہی ہونا چاہیے۔
یہ اتنی ہی گمراہ کن دلیل ہے جتنی یہ دلیل کہ کتے اور بلیاں دونوں کو 4 پیر ہیں لہٰذا کتا بلی ہی ہونا چاہیے۔ ہندوستانی مسلمان اتنے ہی ہندوستانی ہیں جتنے پاکستانی ہندو پاکستانی ہیں۔ کوئی بھی، خطرناک نظر آنے والی یا پھر پوشیدہ سیاسی سازش یا جوڑ توڑ اس حقیقت کی ساخت کو بدل نہیں سکتی۔
پھر کیوں مودی کی بی جے پی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان کے اندر مسلمانوں کے خلاف جذبات بڑھکانے کا شور پوری شدت کے ساتھ مچایا ہوا ہے؟ کیا اسے یہ توقع ہے کہ ہندوستانی مسلمان ان کی اطاعت گزاری پر مجبور ہوجائیں گے؟ اور کیا اس کا ماننا یہ ہے کہ ایک اچھا پاکستانی صرف اور صرف ایک مردہ پاکستانی ہوتا ہے؟
تاریخ کا وہ سبق جس سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکا کہتا ہے کہ جنگ کا ابتدائیہ تو جھوٹ لکھ سکتا ہے مگر اس کا انجام حقیقت لکھتا ہے۔
یہ مضمون 11 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔