• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:58pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:31pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:58pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:31pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm

فیصلے کے بعد جمہوریت کی صورتحال

شائع July 29, 2017

ایک مختصر، تاکیدی اور متفقہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے نیچے اتار دیا، احتساب کو دھکا دیا اور سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کردیا۔ فیصلے کے مکمل قانونی اثرات آنے والے چند دنوں میں سامنے آئیں گے اور عدالت کی جانب سے نواز شریف کی پارلیمان سے نااہلی کے لیے پیش کی جانے والی وجہ پر زبردست بحث ہوگی۔ لیکن ایک بات واضح ہے: نواز شریف نے 2013 میں کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ اثاثوں کی نامکمل تفصیلات جمع کروا کر خود عدالتی سزا کے لیے راہ ہموار کی۔

شاید سابق وزیرِ اعظم انتخابی افسران سے یہ چھپانا چاہتے تھے کہ وہ دبئی کی کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین ہیں یا شاید امیدواروں کے عمومی لاپرواہ رویے کی طرح انہوں نے ایسا کیا، لیکن ملک بھر میں یہ سخت پیغام جاچکا ہے کہ: سب کچھ مکمل اور شفافیت سے ظاہر کرو ورنہ حتمی سزا کے خطرے کے لیے تیار رہو۔ یہ سخت تشریح ایک نعمت بھی ثابت ہوسکتی ہے — اگر اس کا شفاف اور یکساں اطلاق کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے کندھوں پر بھاری بوجھ ہے اور پرامید ملک نئے معیار کی منصفانہ اور یکساں عملدرآمد کا انتظار کرے گا۔

سیاسی لحاظ سے نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے معزز راستہ اختیار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو فوری طور پر تسلیم کرلیا، باوجود اس کے کہ پارٹی رہنماؤں نے فیصلے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف کی عدالتی قسمت جو بھی ہو یہ ہمیشہ واضح رہا ہے کہ مجموعی جمہوریت کا داؤ پر لگنا ایک شخص کے سیاسی مستقبل سے بڑھ کر ہے — توجہ جمہوری عمل کو آگے بڑھانے پر مرکوز رہنی چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز جلد ہی نیا وزیرِ اعظم نامزد کرکے قومی اسمبلی سے اگلا وزیراعظم منتخب کروائے۔

اس کام میں التواء پاکستان مسلم لیگ نواز کے مفاد میں نہیں ہوگا اور یقینی طور پر ملکی مفاد میں بھی نہیں۔ پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی جماعت، 342 نمائندگان کی اسمبلی، کے لیے متبادل وزیراعظم تلاش کرنا آسان ہونا چاہیے، ملک کو اس نقصان دہ سیاسی قسط سے نکلنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کو معزز انداز میں کام کرتے ہوئے مجموعی جمہوری عمل کو محفوظ کرنا چاہیے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک اہم فتح حاصل ہوگئی۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے ساتھ جو بھی اختلافات ہوں لیکن سیاسی سچائی کو سراہا جائے: اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پارٹی کی جانب سے بنا فائدہ حاصل کیے جاری رہنے والی مہم نہ ہوتی تو منتخب نمائندوں کا احتساب قومی سیاسی گفتگو کا مرکز نہیں ہوتا۔ پاناما پیپرز کیس کو عمران خان نے قانونی اور سیاسی حلقوں میں تقریباً اکیلے ہی اپنی کوششوں سے زندہ رکھا۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے غیر مستحکم سیاست کی لیکن ان کی غیرجانبداری کی وجہ سے ایسا احتساب سامنے آیا جس کے بارے میں چند ماہ قبل کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

اب یہاں سے پی ٹی آئی کا مقصد احتساب کے عمل کو مزید بڑھانے پر ہونا چاہیے جسے بڑھا کر (پارلیمنٹ کے) منتخب نمائندگان تک نہیں بلکہ ریاست کے دیگر اداروں تک پہنچانا ہے۔ مشکلات کے باوجود، عمران خان اور ان کی جماعت نے پاکستان میں شفاف سیاسی عمل کی بنیاد رکھنے کے لیے مدد فراہم کی۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو بھی اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کے سخت عمل کے لیے پیش کرنا چاہیے جس میں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا۔

بالآخر سیاسی منظرنامے میں ایک اہم بھونچال آگیا اور نگاہیں پاکستان میں سیاسی استحکام پر موجود ہیں جہاں ایک اور وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری ہونے سے قبل گھر بھیج دیا گیا۔ سیاسی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر ملک کو ایسی نازک صورتحال میں دھکیلنے کے لیے سازشوں کی تلاش ممکن ہے یا پھر قربانی کے بکروں کو موردِ الزم ٹھہرایا جائے۔

تاہم جمہوریت کے محافظ ہونے کی حیثیت سے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کو اہم ذمہ داری قبول کر لینی چاہیے تھی۔ نواز شریف استعفیٰ دے کر ملک کو ایک مزید سیاسی افراتفری سے بچا سکتے تھے یا پھر نواز شریف سپریم کورٹ میں منی ٹریل دے سکتے تھے جس کے لیے بنیادی طور پر عدالت نے انہیں بلایا تھا لیکن نواز شریف نے دونوں کام نہیں کیے۔

لیکن اب نواز شریف اور ان کی جماعت کو اپنے کاندھوں پر آنے والی نئی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے: ملک کو جمہوری راستے پر لانے میں مدد کریں یا پھر جمہوریت کو خطرے سے دوچار کردیں۔ لیکن اگر نواز شریف عدالتی مینڈیٹ سے حاصل ہونے والے سیاسی مستقبل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو طاقت کے دیگر مراکز کو پاکستان مسلم لیگ نواز اور دیگر مقبول سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنے کے جمہورئ راستے کے تعین کا موقع فراہم کرنا ہوگا۔

جن سخت حدود میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا ان سے باہر ملک میں اختیار کی سیاسی اور ادارتی حقیقت ہے۔ جمہوری عمل کسی بھی صورتحال میں ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 29 جولائی 2017 کو شائع ہوا۔

[انگلش میں پڑھیں۔1

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 7 ستمبر 2024
کارٹون : 6 ستمبر 2024