'پاکستان ٹاس جیت جائے گا، پہلے دن تین وکٹ کے نقصان پر 300 رنز بنائے گا اور پانچویں دن باآسانی میچ جیت جائے گا'۔ شارجہ ٹیسٹ میچ سے قبل عظیم پاکستانی کھلاڑیوں کے اس طرح کے بیانات ٹیم پر بھرپور اعتماد کی غمازی کر رہے تھے۔
ہاں، توقعات کے عین مطابق پاکستان نے ٹاس تو جیتا، لیکن اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ جو ہوا وہ یقیناً پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لیے کچھ نیا نہ تھا اور پھر پانچویں دن باآسانی میچ تو جیتا لیکن پاکستان نے نہیں بلکہ ویسٹ انڈیز نے۔
ویسٹ انڈیز نے تیسرے ٹیسٹ میں ٹاس ہارنے کے بعد ابتدائی اوور میں ہی دو وکٹیں لے کر حد سے زیادہ خود اعتمادی کی شکار پاکستانی ٹیم کی کمزوریوں کو بھانپتے ہوئے جیت کی جانب پیش قدمی شروع کی اور سیریز کے ابتدائی دن سے حریف کو کمزور سمجھنے کا خمیازہ پاکستان کو بالآخر اس ٹیسٹ میچ میں شکست کی صورت میں اٹھانا پڑا۔
لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ادھ مری اور پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میچوں میں جیت کے جذبے سے عاری ویسٹ انڈین ٹیم ٹیسٹ سیریز میں یکسر مختلف نظر آئی اور متحدہ عرب امارات میں نیوزی لینڈ کے بعد پاکستان کو چیلنج کرنے والی واحد ٹیم بنی؟
حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو سیریز کے دوران مصباح الحق کی دفاعی قیادت کے زیر سایہ پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو سیریز جیتنے کے کئی مواقع فراہم کیے جس کی سب سے بڑی مثال دبئی میں کھیلا گیا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ تھا اور اگر ڈیرن براوو جلد بازی سے کام نہ لیتے اور یاسر نے ان کا عمدہ کیچ نہ لیا ہوتا تو ہم سب جانتے ہیں کہ نتیجہ کیا نکلتا۔
مزید پڑھیں: ہم غلطیاں کرتے چلے گئے، مصباح کا اعتراف
سیریز میں سب سے بڑا سوالیہ نشان 'آل راؤنڈر' محمد نواز کی سلیکشن ہے اور تین میچ گزرنے کے باوجود یہ سمجھ نہ آ سکا کہ آخر وہ باؤلنگ آل راؤنڈر کی حیثیت سے کھیلے یا بیٹنگ آل راؤنڈر کی؟
باؤلنگ کی بات کی جائے تو سیریز میں نواز نے 63.5 اوورز کیے جن میں سے 34 سے زائد اوورز انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں کروائے اور مجموعی طور پر 146 رنز کے عوض صرف پانچ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ بیٹنگ میں کارکردگی اس سے بھی ابتر رہی جہاں وہ چار اننگز میں صرف 50 رنز بنا سکے اور محمد نواز کے حوالے سے اس لیے بھی سوال بنتا ہے کیوں کہ دورہءِ نیوزی لینڈ کے لیے اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں ذوالفقار بابر پر ترجیح دی گئی ہے جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں انہیں نوجوان بلے باز بابر اعظم پر ترجیح دے کر تینوں میچوں میں کھلایا گیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سلیکٹرز رویندرا جدیجا سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں اور اسی لیے بابر کو نظر انداز کر کے نواز کو جدیجا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے مستقبل قریب میں کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
آخر ایک روزہ میچوں میں تین سنچریاں بنانے والے بابر اعظم کو ایک ٹیسٹ کھلانے کے بعد کیوں ڈراپ کیا گیا؟ حالانکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یونس خان اور مصباح الحق اب زیادہ دن کے مہمان نہیں اور خصوصاً مصباح آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد ممکنہ طور پر ریٹائر ہو جائیں گے، تو پھر مڈل آرڈر میں پہلے سے بلے باز تیار کر کے انہیں اعتماد فراہم کیوں نہیں کیا جا رہا؟
یونس خان کا متبادل ڈھونڈنا یقیناً بہت مشکل ہوگا لیکن ان کے متبادل کے طور پر ایک اچھے بلے باز کو تیار کرنے کی حکمت عملی بھی کہیں نظر نہیں آتی جبکہ سینٹرل کانٹریکٹ سے پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کی تاریخ کے سب سے کامیاب بلے باز فواد عالم کو ڈراپ کر کے ہماری ٹیم مینجمنٹ اور سیلکشن کمیٹی نے ایک بار پھر اپنی 'دور اندیشی' کا عملی ثبوت دیا۔
پہلے میچ سے ڈراپ ہونے کے بعد بقیہ دو ٹیسٹ میچوں میں ذوالفقار بابر بھی جدوجہد کرتے ہوئے نظر آئے اور اس کی وجہ فارم کی کمی ہے یا ماضی میں انگلی میں ہونے والا فریکچر کہ ان کی باؤلنگ میں پہلی جیسی کاٹ نظر نہیں آئی۔
فاسٹ باؤلر عامر کے بارے میں ہارون رشید نے کہا کہ وہ اس وقت موجودہ دور میں پاکستان کے سب سے بہترین باؤلر ہیں لیکن اب تک کھیلے گئے میچوں میں ان کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوا ہے.
یہ بھی پڑھیں: بریتھ ویٹ کا عالمی ریکارڈ اور ویسٹ انڈیز کی یادگار فتح
اور یہ اس بات کی واضح دلیل بھی ہے کہ بلند و بانگ دعووں کے باوجود چاہے وہاب ریاض ہو، سہیل خان یا راحت علی لیکن پاکستان کے پاس اس وقت کوئی ایسا فاسٹ باؤلر نہیں جو حریف ٹیم کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے یاسر شاہ ٹیسٹ میچ نہیں کھیل پاتے تو پاکستان کس باؤلر کے سہارے 20 وکٹیں لے گا؟
بیٹنگ کی بات کریں تو سمیع اسلم کا نصف سنچری کو بڑی اننگ میں تبدیل نہ کرنا پریشان کن امر ہے جبکہ اوپری نمبروں پر اسد شفیق کا بھی نصف سنچریوں کو سنچریوں میں تبدیل نہ کرنا دورہ نیوزی لینڈ کے دوران قومی ٹیم کے لیے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
لیکن بیٹنگ میں سب سے بڑا مسئلہ سرفراز احمد کی بیٹنگ ہے جو ہر میچ میں انتہائی جلد بازی میں نظر آئے اور جن دو مواقع پر ٹیم کو ان کی بڑی اننگ کی ضرورت تھی تو وہ وکٹ پر سیٹ ہونے کے بعد غیر ضروری شاٹ پر وکٹ گنوا کر ٹیم کو مزید مشکلات کا شکار کر کے پویلین جا پہنچے، لہٰذا انہیں ٹیسٹ اور محدود اوورز کی کرکٹ کے فرق کو سمجھتے ہوئے وکٹ پر ذرا ٹھہر کر کھیلنے کا ہنر اپنانا ہو گا۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ میں شکست دراصل پاکستان ٹیم کے لیے ضروری تھی۔ جی ہاں، یہ شکست ضروری تھی تاکہ اس ٹیم کو اندازہ ہو کہ متحدہ عرب امارات کی بیٹنگ کے لیے جنت تصور کی جانے والی وکٹوں پر ویسٹ انڈیز جیسی اوسط درجے کی ٹیم کے خلاف ان کی بیٹنگ کا یہ حال ہے تو رواں ماہ نیوزی لینڈ اور پھر آسٹریلیا کے دورے کے دوران عالمی معیار کی باؤلنگ کا کس طرح سامنا کر پائیں گے؟
یہ شکست ضروری تھی تاکہ ہم خود کو ورلڈ کلاس باؤلنگ کی حامل ٹیم سمجھنے کی خود ساختہ سوچ سے باہر آ سکیں اور یہ جان سکیں کہ ہمارے پاس یاسر کے سوا کوئی 'میچ وننگ' باؤلر نہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ شکست اس لیے ازحد ضروری تھی تاکہ ہماری ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز یہ بات سوچنے پر مجبور ہوں کہ یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹنگ لائن کا بوجھ کون اٹھائے گا اور بیٹنگ لائن میں ان کی جگہ کون لے گا۔
عالمی نمبر ایک اور عالمی نمبر دو کے خمار سے باہر آ کر ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ون ڈے کے بعد ٹیسٹ ٹیم بھی رینکنگ میں کہیں ساتویں یا آٹھویں نمبر پر موجود ہوگی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (10) بند ہیں