• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am

ایم کیو ایم لندن کے رہنما رینجرز کی حراست میں

شائع October 22, 2016
حسن ظفر عارف ایم کیو ایم لندن کی عبوری رابطہ کمیٹی کے رکن ہیں — فوٹو: آن لائن
حسن ظفر عارف ایم کیو ایم لندن کی عبوری رابطہ کمیٹی کے رکن ہیں — فوٹو: آن لائن

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے رہنما پروفیسر حسن ظفر عارف، کنور خالد یونس اور امجد اللہ کو رینجرز نے حراست میں لے لیا۔

ایم کیو ایم لندن کی جانب سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) پر پریس کانفرنس کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم جب پارٹی رہنما پریس کلب پہنچے تو ان کو وہاں داخل ہونے سے قبل ہی حراست میں لے لیا گیا۔

حسن ظفر عارف پریس کلب کے باہر ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے تھے، جب رینجرز اہلکار ان کے پاس آئے، اہلکاروں نے ان سے مصافحہ کیا اور ان کو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔

رینجرز کے اہلکاروں نے حسن ظفر عارف کو موبائل میں بٹھایا اور ساتھ لے گئے۔

ایم کیو ایم کے کچھ کارکنان کراچی پریس کلب کے باہر موجود تھے تاہم جب رینجرز نے رہنما کو حراست میں لیا تو وہاں موجود کارکن بھی چلے گئے۔

حسن ظفر عارف کو حراست میں لیے جانے پر ایم کیو ایم لندن کے رہنما واسع جلیل نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے دوسرے ارکان سے بھی رابطہ نہیں ہو رہا۔

ڈان نیوز سے گفتگو میں ایم کیو ایم لندن کے رہنما واسع جلیل نے مزید کہا کہ خدشہ ہے کہ رابطہ کمیٹی کےدوسرے ارکان کوبھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

رابطہ کمیٹی کے ارکان کی گرفتاری کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے پریس کانفرنس ملتوی کر دی گئی۔

ڈان نیوز کے مطابق ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما کنور خالد یونس کو بھی پریس کلب آتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔

بعد ازاں رینجرز نے ایم کیو ایم لندن رابطہ کمیٹی کے رکن امجد اللہ کو بھی حراست میں لے لیا۔

یاد رہے کہ ایم کیو ایم لندن نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس میں حسن ظفر عارف کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔

گذشتہ ہفتے بھی ایم کیو ایم لندن کی اعلان کردہ رابطہ کمیٹی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مائنس ون نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں : مائنس ون نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے، ایم کیو ایم لندن

کراچی پریس کلب میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی لندن کے رکن پروفیسر حسن ظفر عارف کا کہنا تھا کہ 'ایم کیو ایم پاکستان یا ایم کیو ایم لندن کوئی چیز نہیں، ایم کیو ایم صرف وہی ہے، جس کے قائد الطاف حسین ہیں'۔

گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم لندن کی جانب سے عبوری رابطہ کمیٹی میں کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف، اسحاق ایڈووکیٹ، امجد اللہ خان، کنور خالد یونس، اشرف نور، اکرم راجپوت، اسمٰعیل ستارہ، ادریس علوی ایڈووکیٹ اور حیدر آباد سے مومن خان مومن کو شامل کیا گیا تھا۔

عبوری رابطہ کمیٹی میں اوورسیز سے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ندیم احسان، ایم کیو ایم کے سینئر ارکان واسع جلیل اور مصطفیٰ عزیز آبادی شامل کیا گیا۔

یاد رہے کہ چند روز قبل ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان، خواجہ اطہار الحسن، فیصل سبزواری اور کشور زُہرا کی پارٹی کی بنیادی رکنیت خارج کردی تھی۔

یہاں پڑھیں:ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے، فاروق ستار

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب رواں برس 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی اور امریکا میں کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے جبکہ پاک فوج سے خود لڑنے کا بھی اعلان کیا تھا، جس پر 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے ہی بانی اور قائد الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کر دیا تھا۔

لندن میں مقیم ندیم نصرت، واسع جلیل، مصطفیٰ عزیز آبادی سمیت دیگر نے ایم کیو ایم پاکستان کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور الطاف حسین کو ہی ایم کیو ایم کا قائد قرار دیا تھا، جس پر ایم کیو ایم پاکستان نے ان افراد کو رابطہ کمیٹی سے نکالتے ہوئے ان کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'غدار فاروق ستار' پارٹی سے خارج، ایم کیو ایم لندن

دوسری جانب سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی سے مبینہ طور پر مطالبہ کیا تھا کہ وہ استعفے دیں، کیوں کہ انھوں نے ان کے نام پر نشستیں حاصل کی تھیں، تاہم تاہم کسی بھی رکن نے اس مطالبے کو اہمیت نہیں دی تھی۔

بعدازاں الطاف حسین نے ویڈیو پیغام میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ان کی کال پر اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیئے تو ووٹرز اپنے حلقوں میں ان استعفوں کو یقینی بنائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024