سوئٹزرلینڈ کی دھرتی جہاں اپنے اندر دلکش و دلفریب نظاروں کے بے پناہ گوہر رکھتی ہے، وہاں انٹرلاکن جیسی جگہ کی ملکیت کی دعویدار بھی ہے۔
انٹرلاکن برنیز اوبرلینڈ کے میدانوں پر تھن اور برینز جھیلوں کے درمیان واقع ہے۔ وہاں تین شاندار پہاڑ آئی گر، مَونچ اور جنگ فُرا آپ کا استقبال کرتے ہیں۔
ویسے اس وادی کے بے شمار مناظر آپ نے بے شمار فلموں میں دیکھ رکھے ہوں گے کیوں کہ بولی وڈ اور ہولی وڈ کی کئی فلموں میں کبھی محبت و رومان تو کبھی جنگی مناظر کو فلمبند کرنے کی غرض سے اس جگہ کا بارہا انتخاب کیا چکا ہے۔
ان نظاروں کی کشش مجھے بھی اس وادی میں کھینچ لائی تھی لیکن میرا یہاں قیام ایک دن سے زیادہ کا نہ تھا۔ انٹرلاکن سے یورپ کے بلند ترین مقام جنگ فرا کو راستہ جاتا ہے، مگر وہاں تک جانے کے لیے آٹھ گھنٹے کا ٹوئر درکار تھا۔
تاہم میں نے مناسب سمجھا کہ شیلتھورن نامی پہاڑ کو سر کیا جائے جو 2970 میٹر اونچا ہے۔ وہاں جانے کے لیے کیبل کار کا سہارا لیا جو کہ یورپ کی سب سے بڑی کیبل کار رائڈ کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔
سوئٹزرلینڈ یورپ کے مہنگے ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ موسم گرما میں ہوٹل کا کمرہ کرائے پر لینا جیب میں شگاف کرنے کے مترادف ہے اور اگر رہائش اور کیبل کاروں کے اخراجات کو ملایا جائے تو یہ نہایت مہنگی سیر ثابت ہوسکتی ہے۔
رات زیورخ میں قیام کے بعد ہم صبح نو بجے کے بعد انٹرلاکن کی طرف روانہ ہوئے۔ اپنی گاڑی میں یہ سفر دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ طویل نہیں ہے۔
راستے میں خوبصورت وادیاں، جھیلیں، دودھیا بادل، سرسبز و شاداب نظارے آپ کو اپنی عام زندگی اور دنیا سے کسی دوسرے جہاں کا احساس دلانے لگتے ہیں۔
ان نظاروں سے دل بہلاتے ہوئے ہم انٹرلاکن ویسٹ اسٹیشن پہنچے۔ ہم نے پہلے بذریعہ ٹرین اوپر جانے کا سوچا مگر ہمیں کیبل کار کا شیلتھورن والی آپشن بہتر لگا، اس لیے ہم انٹرلاکن سے کچھ نصف گھنٹے کی مسافت کے بعد کیبل کار کے بیس کیمپ پر پہنچے۔
یہاں سے کیبل کار چار مختلف اسٹاپس گزر کر آپ کو شیلتھورن کی چوٹی پر لے جاتی ہے۔ اسی چوٹی پر 1969 میں جیمز بانڈ کی مشہور فلم 'آن ہر میجسٹیز سیکرٹ سروس' کے لڑائی والے مناظر فلمبند کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کئی ہندوستانی فلموں کے مشہور گانے بھی اسی جگہ کی خوبصورتی چرا کر دکھاتے ہیں۔
سوئس کیبل کار
سوئس کیبل کار اپنے اندر ایک بہت ہی خاص تکنیکی خوبصورتی رکھتی ہے۔ کیبل کار باکس میں ایک ہی وقت میں 65 لوگوں کو لے جانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
گو کہ اس میں لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں بنائی گئی لیکن کیبل کار کچھ اس انداز میں اوپر چڑھتی ہے کہ آپ بغیر سہارے اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑے رہ سکتے ہیں۔
آپ کا اوپر جانا اتنا آرامدہ اور شاندار ہوتا کہ آپ کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ آپ عمودی چڑھائی چڑھ رہے ہیں۔
شیلتھورن پر گلوریا
اس کیبل کار کی سب سے اونچی چڑھائی شیلتھورن ہے جسے بہت ہی خوبصورت انداز میں فنکشنل کیا گیا ہے۔
اس چوٹی پر 360 ڈگری نامی ایک ریسٹورنٹ ہے جہاں پر ساری کرسیاں اور میز بڑے دھمیے دھیمے انداز میں گھومتے ہیں تاکہ منظر دیکھنے کے لیے آپ کو گھومنا نہ پڑے بلکہ منظر خود سے ہی بدلتے جائیں اور آپ کی آنکھیں ہر تھوڑی دیر بعد منظر کو ایک نئے رخ سے دیکھ پائیں۔ ریسٹورنٹ مالک بھی مبارک کا مستحق ہے، جیسا فزکس سے بھرپور ریسٹورنٹ، ویسا ہی نام بھی۔ واہ، نظارے خود آپ کے پاس آتے ہیں۔
اردگرد کا نظارہ کرنے کے لیے ایک بڑی جگہ بنائی گئی ہے۔ یہاں پر جمیز بانڈ کی قد آور تصاویر بھی لگائی گئی ہیں اور لوگ بڑے شوق سے ان کے ساتھ تصویریں کھنچواتے نظر آئے۔
اس کے ساتھ ہی پہاڑی کی چوٹی سے گہرائی کی جانب ایک راستہ بنایا گیا ہے جہاں سے گہرائی کو قریب سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس راستے کو تھرل واک کا نام دیا گیا ہے۔
اس راستے کا اختتام ایک لوہے کے چبوترے پر ہوتا ہے جہاں سے لوگ تصاویر بنا سکتے ہیں اور وادی کا نطارہ کر سکتے ہیں۔
ٹورزم کی پراڈکٹ ڈویلپمنٹ
سوئٹزرلینڈ نے جس طرح اپنے قدرتی نظاروں کی پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کی ہے وہ قابل تقلید ہے، ہر سال لاکھوں سیاح سوئٹزر لینڈ کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ صرف یہاں کے نظارے نہیں، بلکہ یہاں موجود اعلیٰ درجے کی سہولیات بھی ہیں۔
سٹرکوں اور موٹر ویز کی حالت بہت اچھی ہے، پہاڑوں پر جا بجا ٹنل بنائے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو دشوار چڑھائیوں سے بچایا جا سکے۔ میں نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ جہاں سڑک کنارے نظارے دلکش ہیں وہاں طویل مدت تک ان نظاروں کو اپنی یادوں میں قید کرنے کے لیے خاص ٹھہرنے کی جگہیں بھی بنائی گئی ہیں۔
ٹرانسپورٹ کے لیے مختلف ذرائع کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے حتیٰ کہ آپ ہیلی کاپٹر بھی کرائے پر لے سکتے ہیں۔
لوگ پیرا گلائیڈنگ کا شوق پورا کرنے دور دور سے یہاں آتے ہیں اور اتنی تعداد میں آتے ہیں کہ ان تفریحات کے لیے پہلے سے وقت لینا پڑتا ہے۔
ہم نے انٹر لاکن کے حسین نظاروں کو اپنے ذہن کی ڈرائیو میں سیو کرنے کیا اور وادی کو دوبارہ آنے کا وعدہ کرنے کے بعد خیر آباد کہا۔
رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کا بلاگ تحریر سے تقریر تک یہاں وزٹ کریں:
تبصرے (8) بند ہیں