الوداع آغا سلیم
نائیجیریا کے شاعر اور ناول نگار بین اوکری نے کہا تھا کہ "کہانیاں خوف کو فتح کرتی ہیں اور حوصلہ بڑھاتی ہیں۔"
اسی طرح کسی بھی زبان کا ادب لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے اس خوف پر فتح پا لیتا ہے جو صدیوں سے ان کے اندر کسی لاوے کی طرح ابل رہا ہوتا ہے، کیونکہ ادب کا اہم ترین مقصد معاشرے کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا ہوتا ہے جو عام آدمی کی آنکھ سے پوشیدہ رہے ہوں۔
جب یہ تمام معاملات کسی ادبی صنف کے ذریعے لوگوں تک پہنچتے ہیں تو معاشرے میں بسنے والے لوگ سوچنا شروع کرتے ہیں، اور جب یہ لوگ سوچنا شروع کرتے ہیں، تو خوف کی فضا چھٹنے لگتی ہے اور امید و حوصلے کا سورج طلوع ہوتا ہے۔
سندھی زبان یوں تو نہایت قدیم ہے، مگر اس کے ادب کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ یہ لگ بھگ ایک صدی اور چند سالوں کا قصہ ہے۔
مگر سندھی ادب میں چند نام ایسے بھی ہیں جنہیں ہم کسی بھی طرح فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کا سندھی ادب کی ترقی و ترویج میں اچھا خاصہ حصہ رہا ہے، جنہوں نے ادب کی آبیاری کے لیے نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، بلکہ ہمارے ملک میں آمریت کے جتنے بھی ادوار رہے ہیں، ان ادوار میں ان کی کتابوں پر بھی پابندیاں لگتی رہی ہیں۔
مگر سوچنے اور لکھنے کے عمل پر پہرے نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح ادب کا یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ آج بہت سی ادبی شخصیات ہم میں نہیں رہیں، لیکن انہوں نے اپنی تحریروں سے ایسے ان مٹ نشان چھوڑے ہیں جو صدیوں تک قائم رہیں گے۔
60 کی دہائی کے محمد ابراہیم جویو، شیخ ایاز، نجم عباسی، رسول بخش پلیجو اور امرجلیل ایسے نام ہیں جنہوں نے سندھی ادب کے لیے جی جان سے کام کیا، مگر انہی ناموں میں سے ایک نام ایسا بھی ہے جسے ہم آغا سلیم کے نام سے جانتے ہیں، جن کی زندگی کا چراغ منگل کے روز بادِ فنا بجھا گئی۔
آغا سلیم کی سندھی ادب میں پہچان تو ایک ناول نگار کی ہی رہی ہے مگر وہ ایک ڈراما نویس، افسانہ نگار، صحافی اور ترجمہ نگار بھی تھے۔
وہ ان تمام سندھی ادیبوں کے ہمعصر تھے جو سندھ میں ترقی پسند اور روشن خیال ادیب مانے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں سراج میمن نے سندھی زبان میں مزاحمتی ناول لکھنے کی روایت کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے کرداروں کو کسانوں اور مزدوروں کی صورت میں دکھایا ہے اور ارغونوں اور ترخانوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو ناولوں میں بیان کیا ہے۔ سندھی میں پہلی بار طبع زاد ناول 1930 میں لکھے گئے، جس کے بعد ناول کا سلسلہ باقاعدہ سندھی ادب کا حصہ بن گیا، مگر آج بھی سندھی ادب میں معیاری ناول کا فقدان موجود ہے۔
سندھی ادب میں آغا سلیم کے لکھے ہوئے ناول "ہمہ اوست" اور "اونداہی دھرتی روشن ہتھ" (اندھیری دھرتی روشن ہاتھ) ایسے ناول ہیں جنہوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ہمہ اوست ناول میں تصوف کے خیال کو پیش کیا گیا ہے جس کا مرکزی کردار سارنگ ہے۔ اس ناول کی کہانی نواب لطف علی خان کے کردار سے شروع ہو کر صوفی شاہ عنایت شہید پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
وہ اپنی تحریر میں بے تحاشا تشبیہات اور استعاروں کا استعمال کرتے تھے۔ سندھ کے نامور دانشور اور وکیل رسول بخش پلیجو نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ آغا سلیم کی تشبیہات اتنی پراثر ہیں، اور وہ اس کمال کاریگری سے اتنے خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ان میں گم ہو جاتا ہے۔
تشبیہات اور استعاروں کے اس زبردست استعمال کی وجہ سے ان کی کہانیوں یا ناول میں جو منظر نگاری پڑھنے کو ملتی ہے، وہ سندھی ادب میں تقریباً ناپید ہے۔ وہ اپنے ناول ہمہ اوست میں لکھتے ہیں کہ:
"پچھلی تاریخوں کا ٹوٹا ہوا چاند آسمان پر لٹکا تھا، اور چاند کی پیلی اور نامکمل روشنی میں ساری کائنات پراسرار لگ رہی تھی۔ ہوا میں تھرتھراتے کشتی کے بادبان، اپنی مستی میں سرمست سندھو، لہروں سے ٹکراتے کشتیوں کے چپو، دوسرے کنارے پر کھڑے درخت، ماہی گیروں کی کشتیاں اور ٹمٹماتے دیے، سب نے مل کر منظر کو عجیب پراسراریت ہخشی تھی۔
"اب افق پر ہلکی ہلکی روشنی بکھرنے لگی تھی اور چاند کی روشنی ماند پڑنے لگی تھی۔ سامنے ٹھٹھہ کی بندرگاہ تھی۔ ٹھٹھہ! اس کے خوابوں کا شہر۔ شہر میں فانوس نے اس کی دل کی خواہش کی مانند رقص کیا۔ گھروں کے ہوا دان، مسجد کے گنبد اور مینار، مندر کے شکھر اسے خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے تھے۔"
ان کے لکھے ہوئے ناولوں کے بارے میں ان کے قارئین یہ اعتراض اکثر کرتے ہیں کہ وہ قرۃ العین حیدر سے متاثر تھے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ "میں چاہتا تھا کی سندھ کی تاریخ کے حوالے سے ایک ناول لکھوں"۔ جس کے بعد انہوں نے اونداہی دھرتی روشن ہتھ ناول لکھا، جس کا تصور انہوں نے قرۃ العین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" سے لیا ہے۔ مگر ان کے جس ناول کو سب سے زیادہ ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی وہ ہمہ اوست ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کی سندھ میں تاریخی حوالے سے ایسا ناول منظر عام پر نہیں آیا تھا جس میں ایک ہی وقت میں تاریخ کے ساتھ ساتھ رومان بھی شامل ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ناول شاہ عبداللطیف بھٹائی کی زندگی پر لکھا گیا ہے۔
ان کی زندگی کے کئی پہلو ہیں۔ وہ صرف قلم کو کاغذ پر چلانے کے ہنر سے واقف نہیں تھے، بلکہ ایک براڈکاسٹر بھی تھے اور سندھی میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ 'سچ' کے مدیر بھی رہے۔ گوکہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے مگر ان کی حقیقی پہچان ایک ناول نگار اور افسانہ نگار کے طور پر ہی ہوئی۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو ترجمہ کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'شاہ لطیف میرا ورثہ ہے۔ میں نے اردو پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہا ہے کہ دیکھیں میرا شاہ سائیں کتنا بڑا شاعر ہے۔ اور یہ کہ میں نے شاہ سائیں کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے قبل انہیں کسی نے بھی اس طرح دریافت نہیں کیا ہے۔ شاہ صاحب کے پاس جو غم کا فلسفہ ہے وہ یہ ہے کہ غم آپ کو پاک کرتا ہے۔"
وہ شاہ لطیف کی شاعری کے ترجمے کو اپنی زندگی کا بہترین کام سجھتے تھے۔ شاہ جو رسالو اردو میں رساله شاهه عبداللطيف بھٹائي منظوم ترجمه جبکہ انگریزی میں Melodies of Shah Abdul Latif Vol. I, II, III کے عنوان سے چھپ چکے ہیں۔
ان کی دیگر تصانیف میں چاند کی تمنا، نامکمل انسان، لذتِ گناہ، درد کا شہر، اور بابا فرید کا ترجمہ 'صدیوں کی صدا' شامل ہیں۔
آغا سلیم سندھی ادب میں صرف ایک ادیب کا نام نہیں ہے بلکہ وہ سندھی ادب کے ان معماروں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے سندھی ادب کو سنوارا، سدھارا اور اپنے حصے کا کردار ہر حال میں ادا کرتے رہے۔
سندھی ادب کے حوالے سے جو کام بھی ان کے حصے میں آئے ہیں، انہوں نے وہ سب بخوبی نبھائے۔ ایک براڈکاسٹر سے لے کر ایک شاعر اور پھر ایک ناول نگار تک ان کا ادبی سفر 81 برس میں تمام ہوا۔ گو کہ آج وہ ہمارے بیچ نہیں، مگر ان کے لکھے ہوئے افسانے، ناول اور لاتعداد اشعار ہمیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ آغا سلیم سندھی ادب کے وہ ادیب تھے، جنہوں نے سندھ کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا کہ اسے تحریر کیے بنا نہ رہ سکے۔
تبصرے (9) بند ہیں