آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ
جنرل راحیل شریف نے روایات سے ہٹ کر عمل کرنے کی اپنی عادت کو برقرار رکھا ہے۔ چاہے دراندازی ہو، عسکریت پسندی، یا پھر سیاسی محاذ، ان کے دور میں جو بھی پیشرفت ہوئی ہیں، وہ سابق آرمی چیف کے دور سے مکمل طور پر الٹ ہیں۔
اس لیے یہ بات حیرانی کا باعث نہیں کہ اس سے پہلے کہ چہ مگوئیاں باقاعدہ بحث کا روپ اختیار کرتیں، جنرل راحیل شریف نے عوامی طور پر فیصلہ کن انداز میں اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں ہونے والی چہ مگوئیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ جنرل راحیل شریف نہ ہی مدتِ ملازمت میں توسیع کی درخواست کریں گے، اور نہ ہی وہ توسیع کو قبول کریں گے۔
پڑھیے: مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجاؤں گا، آرمی چیف
اس سال نومبر میں پاک فوج کا ایک نیا سربراہ منتخب ہوگا، جس سے وہ ادارتی روایت دوبارہ بحال ہوگی جو پرویز مشرف اور اشفاق پرویز کیانی کے ادوار کے دوران مجموعی طور پر 15 سال کے لیے معطل رہی ہے۔
اس واحد وجہ کی بنا پر جنرل راحیل شریف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اگر ایک کے بعد ایک فوجی سربراہان قوانین اور روایات کی عدم پاسداری کرتے ہوئے خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں دفتر میں رہنا ہے یا نہیں، تو اس سے ایک ناگوار مثال قائم ہوتی ہے۔
مگر آرمی چیف کا فیصلہ کتنا ہی خوش آئند کیوں نہ ہو، اپنی رائے کا اتنے واضح انداز میں آئی ایس پی آر کے ذریعے اظہار کر کے انہوں نے نادانستہ طور پر ملک میں موجود سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کو آشکار کر دیا ہے۔
ایک سویلین افسر کا مدتِ ملازمت میں توسیع چاہنے کا ریکارڈ ملاحظہ کریں۔ آئینی ذمہ داری رکھنے والے وہ آخری شخص جن کے بارے میں توسیع کی خبریں گردش میں تھیں، وہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری تھے۔
اور جب 2013 میں ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا، تو یہ واضح تھا کہ اس حوالے سے کوئی آپشنز موجود نہیں ہیں۔ افتخار محمد چوہدری نے وہی کیا جو آئین کا تقاضہ تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان، جو زیادہ تر تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، انہوں نے بسا اوقات آئینی طریقہ کار کی پاسداری کی ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت کی مدت تمام ہوئی، تو انتخابات فوراً منعقد کروا دیے گئے۔ جب سابق صدر آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار ختم ہوا، تو انہوں نے اقتدار بغیر کسی مزاحمت کے اگلے صدر کو سونپ دیا۔
اس دفعہ وزیرِ اعظم نواز شریف نے مستقل اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی حکومت کی قسمت کا فیصلہ صرف عوام ووٹ کے ذریعے کریں گے جب ان کی پارلیمانی مدت تمام ہوجائے گی۔
اس حوالے سے کم ہی شکوک موجود ہیں کہ 2018 میں عوام کا فیصلہ جو بھی ہوگا، مسلم لیگ ن اسے قبول کرے گی۔
لیکن اسی وقت جنرل راحیل شریف کا فیصلہ بھلے ہی اصولوں پر مبنی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کی شرائط پر کیا گیا ہے اور اس کا اعلان بھی اسی ادارے نے کیا ہے جس کے وہ سربراہ ہیں۔
سول سربراہی میں کام کرنے والی وزارتِ دفاع، جو عام طور پر عسکری فیصلوں میں فعال کردار ادا نہیں کرتی، اس کا کردار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔
جنرل راحیل شریف کے دور میں آئی ایس پی آر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہی تمام فوجی معاملات کا اعلان کرتا ہے، اور وزیرِ اعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ سے بالاتر معلوم ہوتا ہے۔
شاید اپنے دور کے اختتامی مہینوں میں جنرل راحیل شریف فوج کے اس انتہائی اثر و رسوخ کے حوالے سے بھی کچھ اقدامات کریں۔
ایک آئینی اور جمہوری پاکستان وہ ہوگا جہاں پر افراد ہمیشہ اداروں کے ماتحت ہوں، اور تمام ادارے ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ماتحت ہوں۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 26 جنوری 2016 کو شائع ہوا۔