دیوانگی نہ کسی کے بس میں ہوتی ہے اور نہ کسی کو بس میں رہنے دیتی ہے۔ یہ آپ کی سرشت میں ہوتی ہے اور خون میں گردش کرتی ہے۔ پھر یہ آپ کے وجود کے ساتھ جوان ہوتی ہے اور جب یہ جوان ہوجاتی ہے تو اپنے راستے خود ڈھونڈ لیتی ہے۔
دنیا کے سارے عجائبات، یہ ترقی، یہ زندگی کے فلسفے یہ سب اس دیوانگی کا نتیجہ ہیں۔ یہ اگر نہ ہوتی تو شاید انسان نہ اتنی ترقی کر پاتا اور نہ خوبصورتیاں اور عجائبات تخلیق کرتا۔
محبتیں ان پرندوں کی طرح ہوتی ہیں جن کے اڑنے کے آسمان آزاد اور وسیع ہوتے ہیں۔ شاہجہان نے ممتاز محل کے لیے یمنا ندی کے کنارے اپنی محبت کے لیے 'تاج محل' بنوایا۔ کہا جاتا ہے کہ 1632 میں تاج محل بننا شروع ہوا اور 1653 میں اس کا کام مکمل ہوا۔ ممتازمحل شاہجہاں کی تیسری بیوی تھی جس کی دیوانگی میں تاج محل بنا اور اب یہ تاج محل محبت اور دیوانگی کا ایک ایسا نشان بن گیا ہے، جسے بہت سارے لوگوں نے اپنی وسعت اور وقعت کے مطابق اپنے محبوبوں کی دیوانگی میں اپنے علاقوں میں بنایا کہ دیوانگی کو کچھ تو تشفی حاصل ہو۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ بدین کی طرف ٹنڈوباگو سے آگے ایک محل بنا ہوا ہے اور اس محل کی بنیادیں بھی دیوانگی پر قائم ہیں۔ مقامی لوگ اسے تاج محل سے ہی تشبیہ دیتے ہیں۔ ٹنڈوباگو شہر سے شمال کی طرف نکلیں تو ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک آپ کے استقبال کے لیے بچھی ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ یہاں مہمان بن کر آتے ہیں، تو یہ سڑک آپ کے ساتھ ہی خاطر و مدارت کرنے کے لیے چل پڑتی ہے۔
اس علاقے کی زمینیں یقیناً زرخیز ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین پر یہاں شیریں خربوزے اگائے جاتے ہیں۔ میں جہاں سے گزرا وہاں زمین پر خربوزوں کی بیلیں حدِ نگاہ تک بچھی ہوئی تھیں۔ سردی کی موسم کی وجہ سے ہلکی دھند کی ایک تہہ تھی جو ان خربوزوں پر چھائی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے ایک تحفظ کی چادر تھی جو ان فصلوں کی حفاظت کے لیے دور دور تک تان دی گئی تھی۔ فطرت اپنے کام کو بہتر جانتی ہے۔
ہمارے ساتھ ٹوٹی پھوٹی سڑک چلتی جا رہی تھی۔ ٹنڈو باگو سے یہ محل 14 کلومیٹر دور شمال کی طرف ہے۔ آپ جب 10 کلومیٹر طے کرلیتے ہیں تو آپ کو محل کے گنبد نظر آنے لگتے ہیں۔ پھر آپ جب محل کے قریب پہنچتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ سڑک جس پر ہم سفر کر کے یہاں پہنچے تھے، وہ حد نگاہ تک چلی جاتی ہے، اور کسی نے پوچھنے پر بتایا کہ اگر اس سڑک پر چلے جائیں تو دنیا کے دوسرے کنارے تک پہنچ جائیں گے کیونکہ راستے ایک دوسرے کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے۔
مجھے کیونکہ اس وقت دنیا کے دوسرے کنارے تک نہیں جانا تھا، اس لیے میں نے سڑک کو چھوڑ دیا اور سڑک کے مغرب کی طرف دیکھا جہاں پر "صاحب محل" کی صورت میں دیوانگی کی ایک خوبصورت یادگار کھڑی تھی، اور ساتھ میں ایک گہری خاموشی، ویرانی اور خستگی تھی جو اس محل کی دیواروں میں بستی تھی۔
اس شاندار محل کو بنانے والے میر حاجی خدا بخش تالپور نے یہ محل 'صاحب خاتون' کی محبت میں تعمیر کروایا اور نام بھی انہی خاتون کے نام سے "صاحب محل" رکھا۔ کہتے ہیں کہ جب اس خاتون کا سحر اپنی اڑان کی آخری حد تک پہنچا تو میر صاحب جو اپنے زمانے کے مانے ہوئے زمیندار تھے، انہوں نے صاحب خاتون کے لیے محل بنانے کا پکا تہیہ کرلیا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے آگرہ کا سفر کیا اور تاج محل کو دیکھ کر وہ واپس لوٹے تو اس زمانے کے حیدرآباد کے مشہور ماہر تعمیرات فیض محمد سلاوٹ سے اس محل کا نقشہ تیار کروایا۔ اور ان کی نگرانی میں 1940 میں اس محل کا تعمیراتی کام شروع ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب نقل و حمل کے لیے ٹرین اور پانی کے جہاز استعمال ہوتے تھے۔ 1843 کے بعد چھوٹی بادبانی کشتیاں اور قافلے ایک سے دوسری جگہ رسد کا کام کرتے۔ 1854 کے بعد بھاپ پر پانی کے جہاز چلنے لگے جو نقل و حمل کا نیا اور انتہائی آسان وسیلہ تھا۔ جنوبی سندھ کے لیے حیدرآباد سے 'گونی پھلیلی' کا بہاؤ نکلتا۔ اس بہاؤ پر جو مشہور گھاٹ تھے ان میں: ھوسڑی، کھتھڑ، ٹنڈو محمد خان، ماتلی، تلہار اور ٹنڈو باگو اہم گھاٹ ہوا کرتے جن کی نشانیاں آج بھی ہیں۔ ٹنڈو باگو میں جو مشہور گھاٹ تھا وہ 'جمالی پھڑدو' کے نام سے جانا جاتا تھا۔
صاحب محل پر تحقیقی کام کرنے والے محترم عثمان راھوکڑو اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ: "اس محل کا تعمیراتی کام کا آغاز 1940 میں ہوا، اس کو مکمل ہونے میں پورے سات برس لگے۔ اس محل میں استعمال ہونے والا لوہا، ٹیئر گارڈر اور فرنیچر برطانیہ سے منگوایا گیا تھا، جبکہ اینٹیں احمد آباد (انڈیا) سے آئی تھیں۔ دوسرا لکڑی کا سامان برما اور سیمنٹ کراچی سے منگوایا گیا تھا۔
یہ محل جب بن کر تیار ہوا تو اسے روشن کرنے کے لیے جنریٹر کا استعمال کیا گیا۔ یہ سارا سامان دو طریقوں سے یہاں پہنچا۔ پہلے ریلوے کے ذریعے حیدرآباد سے بدین کے قریب تلہار ریلوے اسٹیشن تک آتا اور وہاں سے بیل گاڑیاں اس سامان کو یہاں تک لے آتیں۔ اس زمانے میں پکے راستوں کا اس علاقے میں تصور بھی نہیں تھا۔
سامان لانے کا دوسرا اہم وسیلہ گونی پھلیلی کا بہاؤ تھا جس میں بھاپ پر کشتیاں چلتیں اور سامان اس کے وسیلے یہاں کے مشہور گھاٹ جمالی پھڑڈو پر پہنچتا اور وہاں سے پھر بیل گاڑیوں پر لاد کر یہاں لایا جاتا۔ اس زمانے میں اس محل پر چالیس لاکھ سے زیادہ خرچہ آیا تھا۔ اپنے زمانے میں بلکہ ابھی تک اس علائقہ میں یہ انتہائی خوبصورت محل ہے۔"
جس طرح ممتاز محل، شاہجہاں کی تیسری بیوی تھی اور جس کی دیوانگی نے تاج محل تعمیر کروایا۔ اور یہاں صاحب خاتون، میر صاحب کی چوتھی بیوی تھیں جس کی دیوانگی نے صاحب محل تعمیر کروایا۔ محل کے مرکزی شاندار دروازے کے ماتھے پر سنگ مرمر کے سفید پتھر پر صاحب محل 1947 کھدا ہوا ہے اور نیچے سیمنٹ پر ایک ترازو بنا ہوا ہے۔
میں مرکزی دروازہ کی بنی ہوئی چھت کے نیچے آجاتا ہوں جہاں کچھ کرسیاں پڑی ہیں۔ میں اس آدمی کے انتظار میں بیٹھا ہوں جس کے پاس اس محل کی چابیاں ہیں، وہ آئے گا تو ہم محل دیکھ سکیں گے۔ میرے ساتھ دو مقامی لکھاری بھی ہیں۔ ان میں سے ایک محترم عثمان راھوکڑو مجھے دروازے سے باہر جنوب کی طرف اشارہ کرکے بتاتے ہیں کہ، 'سامنے انگوروں اور آموں کے باغات تھے۔' میں نے دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا، بس خالی زمین تھی۔ مگر تصور کی نگاہ سے دیکھیں تو انگوروں اور آموں کے باغات نظر آتے ہیں، تیز ہرے رنگ کے طوطے ہیں جو کھاتے کم ہیں اور بولتے زیادہ ہیں، ایک درخت سے دوسرے درخت پر جا بیٹھتے ہیں، انگور کے گچھے بیلوں پر لٹکتے ہیں اور آموں کے پیڑوں پر آم ٹپکنے کو تیار ہیں۔
محل دکھانے والا آگیا تھا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑے۔ آپ جیسے ہی محل کے اندر داخل ہوتے ہیں، ایک وسیع آنگن آپ کے استقبال کے لیے منتظر نظر آتا ہے۔ آنگن میں جانے سے پہلے آپ کو مغرب میں بنی ہوئی وہ جگہ اپنے طرف بلاتی ہے، جہاں گئے وقتوں میں شام کے پلوں کی جھولی میں بیٹھ کر ان لمحوں کی رنگینی اور سانجھ کی مہکتی خوشبو کو اپنی سانسوں میں محسوس کیا ہوگا۔
اس جگہ سے اگر محل کو دیکھیں اور ساتھ میں تصور کی آنکھ بھی کھلی رکھیں تو پلوں میں نہ جانے کتنے موسم آپ پر سے گذر جائیں گے۔ اس نشست گاہ کے نیچے پانی کا ایک فوارہ ہے جو اب نہ جانے کب سے خشک پڑا ہے۔ اس خشک پڑے فوارے سے اگر مشرق کی طرف دیکھیں گے تو محل کا وہ حصہ ہے جو زیرِ زمین بنایا گیا ہے۔ اسے دیکھنے کی تمنا شاید اب تمنا ہی رہے۔ کیونکہ زیرِ زمین پانی بھر جانے کی وجہ سے وہ حصہ بند کردیا گیا ہے۔
وسیع آنگن سے آپ جیسے محل کے دالان میں داخل ہوتے ہیں تب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس محل کی خاموشی اور خوبصورتی کب سے آنکھیں بچھائے آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ سامنے دیوار پر تاج محل کی تصویر ہے جس کو سیمنٹ کے فریم میں بنایا گیا ہے، کھڑکیوں پر رنگین شیشے ہیں جو باہر سے آتی ہوئی روشنی کی وجہ سے اپنے اپنے رنگ بکھیرتے ہیں۔ ہرا، گلابی، پیلا، سبز۔ اور ایک خوشگوار احساس کی لہر آپ کے ذہن میں ترنگیں بھر دیتی ہے۔
پھر سیڑھیاں چڑھ کر آپ اوپر آتے ہیں جہاں ڈرائنگ، ڈائننگ ہال اور وسیع بیڈروم ہیں۔ ٹیک وغیرہ کی لکڑی کی وجہ سے ابھی وقت کی دیمک حملہ آور نہیں ہوئی ہے۔ سب نیا اور حیرت انگیز ہے۔ بس خاموشی اور پراسراریت کی ایک تہہ ہے جس میں ہر چیز لپٹی ہوئی ہے۔
1947 میں یہ محل بن کر مکمل ہوا اور اسی برس بٹوارہ ہوا۔ اس کے بعد میر صاحب آٹھ برس تک زندہ رہے اور 1955 میں اس محل میں آنکھیں موند لیں۔ میں نے کھڑکی کھولی تو میرے سامنے محل کا وہ وسیع آنگن پھیلا ہوا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میر صاحب اس آنگن میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ اب اس آنگن میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ دن اور رات کے پہر اس آنگن اور چھت سے بس ایسے ہی خاموش خاموش گذر جاتے ہیں۔
ہم ایک بار پھر سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور محل کی چھت پر آجاتے ہیں۔ دور دور تک زمینیں اور اکا دکا گاؤں ہیں جو نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں سرسوں کے کھیتوں کی پیلاہٹ نظر آجاتی ہے۔ ٹنڈوباگو پر تاریخی سوجھ بوجھ رکھنے والے انور عباسی نے مجھے شمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ "وہاں اس طرف بٹوارے سے پہلے 'گرو سنگھ' سکھ کا بڑا گاؤں تھا"۔ میں حیران ہوا۔ "ساٹھ سے زیادہ گھر تھے، 1887 کے اسکول رکارڈ میں میں نے اس گاؤں کے بچوں کے نام دیکھے ہیں جو تعلیم حاصل کرتے تھے۔"
میں نے اس طرف دیکھا جہاں کبھی 'گرو سنگھ' کا گاؤں تھا۔ جہاں گھروں کے آنگن ہوتے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ گاؤں کے بیچ میں برگد کا ایک گھنا پیڑ تھا۔ بہار کے موسم میں اس میں جھولے پڑتے ہوں گے۔ پر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ نہ کسی آنگن کا نشان، نہ گردوارہ اور نہ کسی برگد کے پیڑ کے نشان۔ بس کچھ نہیں بچتا۔ حالات اور وقت کی کوکھ کبھی نہیں بھرتی، بس کیفیتیں اور نام رہ جاتے ہیں۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (32) بند ہیں