• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm
شائع January 13, 2016 اپ ڈیٹ January 15, 2016

دیوانگی نہ کسی کے بس میں ہوتی ہے اور نہ کسی کو بس میں رہنے دیتی ہے۔ یہ آپ کی سرشت میں ہوتی ہے اور خون میں گردش کرتی ہے۔ پھر یہ آپ کے وجود کے ساتھ جوان ہوتی ہے اور جب یہ جوان ہوجاتی ہے تو اپنے راستے خود ڈھونڈ لیتی ہے۔

دنیا کے سارے عجائبات، یہ ترقی، یہ زندگی کے فلسفے یہ سب اس دیوانگی کا نتیجہ ہیں۔ یہ اگر نہ ہوتی تو شاید انسان نہ اتنی ترقی کر پاتا اور نہ خوبصورتیاں اور عجائبات تخلیق کرتا۔

محبتیں ان پرندوں کی طرح ہوتی ہیں جن کے اڑنے کے آسمان آزاد اور وسیع ہوتے ہیں۔ شاہجہان نے ممتاز محل کے لیے یمنا ندی کے کنارے اپنی محبت کے لیے 'تاج محل' بنوایا۔ کہا جاتا ہے کہ 1632 میں تاج محل بننا شروع ہوا اور 1653 میں اس کا کام مکمل ہوا۔ ممتازمحل شاہجہاں کی تیسری بیوی تھی جس کی دیوانگی میں تاج محل بنا اور اب یہ تاج محل محبت اور دیوانگی کا ایک ایسا نشان بن گیا ہے، جسے بہت سارے لوگوں نے اپنی وسعت اور وقعت کے مطابق اپنے محبوبوں کی دیوانگی میں اپنے علاقوں میں بنایا کہ دیوانگی کو کچھ تو تشفی حاصل ہو۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ بدین کی طرف ٹنڈوباگو سے آگے ایک محل بنا ہوا ہے اور اس محل کی بنیادیں بھی دیوانگی پر قائم ہیں۔ مقامی لوگ اسے تاج محل سے ہی تشبیہ دیتے ہیں۔ ٹنڈوباگو شہر سے شمال کی طرف نکلیں تو ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک آپ کے استقبال کے لیے بچھی ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ یہاں مہمان بن کر آتے ہیں، تو یہ سڑک آپ کے ساتھ ہی خاطر و مدارت کرنے کے لیے چل پڑتی ہے۔

صاحب محل کا بیرونی منظر.
صاحب محل کا بیرونی منظر.
محل ٹنڈو باگو سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے.
محل ٹنڈو باگو سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے.

اس علاقے کی زمینیں یقیناً زرخیز ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین پر یہاں شیریں خربوزے اگائے جاتے ہیں۔ میں جہاں سے گزرا وہاں زمین پر خربوزوں کی بیلیں حدِ نگاہ تک بچھی ہوئی تھیں۔ سردی کی موسم کی وجہ سے ہلکی دھند کی ایک تہہ تھی جو ان خربوزوں پر چھائی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے ایک تحفظ کی چادر تھی جو ان فصلوں کی حفاظت کے لیے دور دور تک تان دی گئی تھی۔ فطرت اپنے کام کو بہتر جانتی ہے۔

ہمارے ساتھ ٹوٹی پھوٹی سڑک چلتی جا رہی تھی۔ ٹنڈو باگو سے یہ محل 14 کلومیٹر دور شمال کی طرف ہے۔ آپ جب 10 کلومیٹر طے کرلیتے ہیں تو آپ کو محل کے گنبد نظر آنے لگتے ہیں۔ پھر آپ جب محل کے قریب پہنچتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ سڑک جس پر ہم سفر کر کے یہاں پہنچے تھے، وہ حد نگاہ تک چلی جاتی ہے، اور کسی نے پوچھنے پر بتایا کہ اگر اس سڑک پر چلے جائیں تو دنیا کے دوسرے کنارے تک پہنچ جائیں گے کیونکہ راستے ایک دوسرے کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے۔

مجھے کیونکہ اس وقت دنیا کے دوسرے کنارے تک نہیں جانا تھا، اس لیے میں نے سڑک کو چھوڑ دیا اور سڑک کے مغرب کی طرف دیکھا جہاں پر "صاحب محل" کی صورت میں دیوانگی کی ایک خوبصورت یادگار کھڑی تھی، اور ساتھ میں ایک گہری خاموشی، ویرانی اور خستگی تھی جو اس محل کی دیواروں میں بستی تھی۔

محل 1947 میں بٹوارے سے کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوا.
محل 1947 میں بٹوارے سے کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوا.
محل کی تیاری کے لیے سامان موجودہ ہندوستان، کراچی، اور برطانیہ سے منگوایا گیا تھا.
محل کی تیاری کے لیے سامان موجودہ ہندوستان، کراچی، اور برطانیہ سے منگوایا گیا تھا.

اس شاندار محل کو بنانے والے میر حاجی خدا بخش تالپور نے یہ محل 'صاحب خاتون' کی محبت میں تعمیر کروایا اور نام بھی انہی خاتون کے نام سے "صاحب محل" رکھا۔ کہتے ہیں کہ جب اس خاتون کا سحر اپنی اڑان کی آخری حد تک پہنچا تو میر صاحب جو اپنے زمانے کے مانے ہوئے زمیندار تھے، انہوں نے صاحب خاتون کے لیے محل بنانے کا پکا تہیہ کرلیا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے آگرہ کا سفر کیا اور تاج محل کو دیکھ کر وہ واپس لوٹے تو اس زمانے کے حیدرآباد کے مشہور ماہر تعمیرات فیض محمد سلاوٹ سے اس محل کا نقشہ تیار کروایا۔ اور ان کی نگرانی میں 1940 میں اس محل کا تعمیراتی کام شروع ہوا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب نقل و حمل کے لیے ٹرین اور پانی کے جہاز استعمال ہوتے تھے۔ 1843 کے بعد چھوٹی بادبانی کشتیاں اور قافلے ایک سے دوسری جگہ رسد کا کام کرتے۔ 1854 کے بعد بھاپ پر پانی کے جہاز چلنے لگے جو نقل و حمل کا نیا اور انتہائی آسان وسیلہ تھا۔ جنوبی سندھ کے لیے حیدرآباد سے 'گونی پھلیلی' کا بہاؤ نکلتا۔ اس بہاؤ پر جو مشہور گھاٹ تھے ان میں: ھوسڑی، کھتھڑ، ٹنڈو محمد خان، ماتلی، تلہار اور ٹنڈو باگو اہم گھاٹ ہوا کرتے جن کی نشانیاں آج بھی ہیں۔ ٹنڈو باگو میں جو مشہور گھاٹ تھا وہ 'جمالی پھڑدو' کے نام سے جانا جاتا تھا۔

صاحب محل پر تحقیقی کام کرنے والے محترم عثمان راھوکڑو اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ: "اس محل کا تعمیراتی کام کا آغاز 1940 میں ہوا، اس کو مکمل ہونے میں پورے سات برس لگے۔ اس محل میں استعمال ہونے والا لوہا، ٹیئر گارڈر اور فرنیچر برطانیہ سے منگوایا گیا تھا، جبکہ اینٹیں احمد آباد (انڈیا) سے آئی تھیں۔ دوسرا لکڑی کا سامان برما اور سیمنٹ کراچی سے منگوایا گیا تھا۔

یہ محل جب بن کر تیار ہوا تو اسے روشن کرنے کے لیے جنریٹر کا استعمال کیا گیا۔ یہ سارا سامان دو طریقوں سے یہاں پہنچا۔ پہلے ریلوے کے ذریعے حیدرآباد سے بدین کے قریب تلہار ریلوے اسٹیشن تک آتا اور وہاں سے بیل گاڑیاں اس سامان کو یہاں تک لے آتیں۔ اس زمانے میں پکے راستوں کا اس علاقے میں تصور بھی نہیں تھا۔

شام کی نشست گاہ.
شام کی نشست گاہ.
صاحب محل آگرہ کے تاج محل سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے.
صاحب محل آگرہ کے تاج محل سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے.

سامان لانے کا دوسرا اہم وسیلہ گونی پھلیلی کا بہاؤ تھا جس میں بھاپ پر کشتیاں چلتیں اور سامان اس کے وسیلے یہاں کے مشہور گھاٹ جمالی پھڑڈو پر پہنچتا اور وہاں سے پھر بیل گاڑیوں پر لاد کر یہاں لایا جاتا۔ اس زمانے میں اس محل پر چالیس لاکھ سے زیادہ خرچہ آیا تھا۔ اپنے زمانے میں بلکہ ابھی تک اس علائقہ میں یہ انتہائی خوبصورت محل ہے۔"

جس طرح ممتاز محل، شاہجہاں کی تیسری بیوی تھی اور جس کی دیوانگی نے تاج محل تعمیر کروایا۔ اور یہاں صاحب خاتون، میر صاحب کی چوتھی بیوی تھیں جس کی دیوانگی نے صاحب محل تعمیر کروایا۔ محل کے مرکزی شاندار دروازے کے ماتھے پر سنگ مرمر کے سفید پتھر پر صاحب محل 1947 کھدا ہوا ہے اور نیچے سیمنٹ پر ایک ترازو بنا ہوا ہے۔

میں مرکزی دروازہ کی بنی ہوئی چھت کے نیچے آجاتا ہوں جہاں کچھ کرسیاں پڑی ہیں۔ میں اس آدمی کے انتظار میں بیٹھا ہوں جس کے پاس اس محل کی چابیاں ہیں، وہ آئے گا تو ہم محل دیکھ سکیں گے۔ میرے ساتھ دو مقامی لکھاری بھی ہیں۔ ان میں سے ایک محترم عثمان راھوکڑو مجھے دروازے سے باہر جنوب کی طرف اشارہ کرکے بتاتے ہیں کہ، 'سامنے انگوروں اور آموں کے باغات تھے۔' میں نے دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا، بس خالی زمین تھی۔ مگر تصور کی نگاہ سے دیکھیں تو انگوروں اور آموں کے باغات نظر آتے ہیں، تیز ہرے رنگ کے طوطے ہیں جو کھاتے کم ہیں اور بولتے زیادہ ہیں، ایک درخت سے دوسرے درخت پر جا بیٹھتے ہیں، انگور کے گچھے بیلوں پر لٹکتے ہیں اور آموں کے پیڑوں پر آم ٹپکنے کو تیار ہیں۔

محل دکھانے والا آگیا تھا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑے۔ آپ جیسے ہی محل کے اندر داخل ہوتے ہیں، ایک وسیع آنگن آپ کے استقبال کے لیے منتظر نظر آتا ہے۔ آنگن میں جانے سے پہلے آپ کو مغرب میں بنی ہوئی وہ جگہ اپنے طرف بلاتی ہے، جہاں گئے وقتوں میں شام کے پلوں کی جھولی میں بیٹھ کر ان لمحوں کی رنگینی اور سانجھ کی مہکتی خوشبو کو اپنی سانسوں میں محسوس کیا ہوگا۔

محل کا آنگن جہاں پر مقدمات کے فیصلے ہوا کرتے تھے.
محل کا آنگن جہاں پر مقدمات کے فیصلے ہوا کرتے تھے.
محل کا آنگن جہاں پر مقدمات کے فیصلے ہوا کرتے تھے.
محل کا آنگن جہاں پر مقدمات کے فیصلے ہوا کرتے تھے.

اس جگہ سے اگر محل کو دیکھیں اور ساتھ میں تصور کی آنکھ بھی کھلی رکھیں تو پلوں میں نہ جانے کتنے موسم آپ پر سے گذر جائیں گے۔ اس نشست گاہ کے نیچے پانی کا ایک فوارہ ہے جو اب نہ جانے کب سے خشک پڑا ہے۔ اس خشک پڑے فوارے سے اگر مشرق کی طرف دیکھیں گے تو محل کا وہ حصہ ہے جو زیرِ زمین بنایا گیا ہے۔ اسے دیکھنے کی تمنا شاید اب تمنا ہی رہے۔ کیونکہ زیرِ زمین پانی بھر جانے کی وجہ سے وہ حصہ بند کردیا گیا ہے۔

وسیع آنگن سے آپ جیسے محل کے دالان میں داخل ہوتے ہیں تب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس محل کی خاموشی اور خوبصورتی کب سے آنکھیں بچھائے آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ سامنے دیوار پر تاج محل کی تصویر ہے جس کو سیمنٹ کے فریم میں بنایا گیا ہے، کھڑکیوں پر رنگین شیشے ہیں جو باہر سے آتی ہوئی روشنی کی وجہ سے اپنے اپنے رنگ بکھیرتے ہیں۔ ہرا، گلابی، پیلا، سبز۔ اور ایک خوشگوار احساس کی لہر آپ کے ذہن میں ترنگیں بھر دیتی ہے۔

پھر سیڑھیاں چڑھ کر آپ اوپر آتے ہیں جہاں ڈرائنگ، ڈائننگ ہال اور وسیع بیڈروم ہیں۔ ٹیک وغیرہ کی لکڑی کی وجہ سے ابھی وقت کی دیمک حملہ آور نہیں ہوئی ہے۔ سب نیا اور حیرت انگیز ہے۔ بس خاموشی اور پراسراریت کی ایک تہہ ہے جس میں ہر چیز لپٹی ہوئی ہے۔

محل کی کھڑکیوں میں رنگین شیشہ استعمال کیا گیا ہے.
محل کی کھڑکیوں میں رنگین شیشہ استعمال کیا گیا ہے.
اندرونی حصے میں ہر جگہ رنگ برنگی نقش و نگار دکھائی دیتے ہیں.
اندرونی حصے میں ہر جگہ رنگ برنگی نقش و نگار دکھائی دیتے ہیں.

1947 میں یہ محل بن کر مکمل ہوا اور اسی برس بٹوارہ ہوا۔ اس کے بعد میر صاحب آٹھ برس تک زندہ رہے اور 1955 میں اس محل میں آنکھیں موند لیں۔ میں نے کھڑکی کھولی تو میرے سامنے محل کا وہ وسیع آنگن پھیلا ہوا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میر صاحب اس آنگن میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ اب اس آنگن میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ دن اور رات کے پہر اس آنگن اور چھت سے بس ایسے ہی خاموش خاموش گذر جاتے ہیں۔

ہم ایک بار پھر سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور محل کی چھت پر آجاتے ہیں۔ دور دور تک زمینیں اور اکا دکا گاؤں ہیں جو نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں سرسوں کے کھیتوں کی پیلاہٹ نظر آجاتی ہے۔ ٹنڈوباگو پر تاریخی سوجھ بوجھ رکھنے والے انور عباسی نے مجھے شمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ "وہاں اس طرف بٹوارے سے پہلے 'گرو سنگھ' سکھ کا بڑا گاؤں تھا"۔ میں حیران ہوا۔ "ساٹھ سے زیادہ گھر تھے، 1887 کے اسکول رکارڈ میں میں نے اس گاؤں کے بچوں کے نام دیکھے ہیں جو تعلیم حاصل کرتے تھے۔"

میں نے اس طرف دیکھا جہاں کبھی 'گرو سنگھ' کا گاؤں تھا۔ جہاں گھروں کے آنگن ہوتے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ گاؤں کے بیچ میں برگد کا ایک گھنا پیڑ تھا۔ بہار کے موسم میں اس میں جھولے پڑتے ہوں گے۔ پر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ نہ کسی آنگن کا نشان، نہ گردوارہ اور نہ کسی برگد کے پیڑ کے نشان۔ بس کچھ نہیں بچتا۔ حالات اور وقت کی کوکھ کبھی نہیں بھرتی، بس کیفیتیں اور نام رہ جاتے ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (32) بند ہیں

Aziz Jan 13, 2016 02:19pm
ابو بکر صاحب آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں. میرا مشورہ یہ ہے کے اپنے کام کو سندھ سے بڑھا کر بلوچستان، سرحد، پنجاب اور گلگت بلتستان تک لے کے جایں تا کے ہمیں اس سر زمین میں چھپی ہزاروں کہانیوں کا پتا چل سکے .
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 13, 2016 02:26pm
بہت زبردست بہت معلوماتی تحریر بہت دلکش انداز ۔
iqbal Jan 13, 2016 02:50pm
ایک سحر انگیز تحریر جو آپ کو گزرے ہوئے دور کی سیر کرواتی محسوس ہوتی ہے
Ozair Jan 13, 2016 03:02pm
سلام، بہت اچھا لکھا ہے، ان کے مضامین اچھے اور کم الفاظ ہوتے ہیں۔ ابوبکر شیخ صاحب کے مضامین بہت شوق سے پڑھتا اور احباب کو بھی بھیجتا ہوں۔
muhammad amjad Jan 13, 2016 03:14pm
Bohot khoob ap likhtay bhot he acha hain
Nomi jan Jan 13, 2016 04:00pm
bahut acha likha he udaas kar diya muje to.......
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 13, 2016 04:28pm
“اک شہنشاہ نے بنوا کے اک حسیں تاج محل ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا ہے “ :(
Hanif Samoon Jan 13, 2016 04:51pm
Again a wonderful blog on the " Taj Mahal" of Sindh.
Abdullah Turk Jan 13, 2016 06:44pm
حالات اور وقت کی کوکھ کبھی نہیں بھرتی، بس کیفیتیں اور نام رہ جاتے ہیں۔ Wah
Abdullah Turk Jan 13, 2016 06:46pm
یوانگی نہ کسی کے بس میں ہوتی ہے اور نہ کسی کو بس میں رہنے دیتی ہے۔ یہ آپ کی سرشت میں ہوتی ہے اور خون میں گردش کرتی ہے۔ پھر یہ آپ کے وجود کے ساتھ جوان ہوتی ہے اور جب یہ جوان ہوجاتی ہے تو اپنے راستے خود ڈھونڈ لیتی ہے۔ nice
عرفان احمد عرفان Jan 13, 2016 08:17pm
خوبصورت کالم خوبصورت انداز
Akhtar Hafeez Jan 13, 2016 08:42pm
ابوبکر صاحب بہت ہی شاندار لکھا ہے۔ اس بار بھی آپ کی تخلیق نے بہت متاثر کیا۔ اور ایک بار پھر ہم ایک ایسی عمارت کی تاریخ سے واقف ہوئے ہیں جس کا صرف نام سنا تھا۔
Farooq Jan 13, 2016 09:11pm
Thanks to DAWN Newspaper and Thanks to Mr. Abubaker Shaikh
Inder Kishan Jan 13, 2016 09:14pm
سائین زبردست
Malik USA Jan 13, 2016 09:29pm
Excellent. When we know these things by your column and Baloch Saheb Column, we wish when the time will come we ordinary people feel secure in our country. So we could go to visit these places to see by our own eyes. And we could invite our friends from outside to visit these places, we could attract foreign tourist.
حفیظ کنبھر Jan 13, 2016 10:06pm
عمارتیں تاریخ کے حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ ھیں ـ ان سے ھمیں لوگوں کے ذوق ـ معاشی حالات کی معلومات ملتی ھے اور عمارتیں افراد کے ساتھ اس علائقہ کو خاص شناخت بھی دیتی ھیں ـ پرانی عمارتیں دیکھنے سے ان عمارتوں میں کبھی بستی ھوئی زندگی کا اندازہ کر سکتے ھیں اور اس کے سائے بھی محسوس کرتے ھیںـ کبھی یہ بھی ھوتا ھے کہ عمارتوں کے ساتھ عام لوگ کئی افسانے بھی منسوب کردیتے ھیں ـ بڑی ـ کشادہ ـ وسیع اراضی پر تعمیر کی گئی عمارتیں عام لوگوں کے لیئے کشش بھی رکھتی تو ان میں ایک پراسراریت بھی نظر آتی ھے ـ اس حوالے سے اگر صاحب محل کا جائزہ لیا جائے تو ھمیں دلچسپ حقائق نظر آئیں گے ـ ایک تو اس عمارت نے اس علائقہ کو فن تعمیر کے حوالے سے شناخت دی ـ دوسرا یہ کہ یہ عمارت کسی راجے مہاراجے یا والیء ریاست نے تعمیر نہیں کرائی تھی بلکہ ایک ایسے جاگیردار نے اس عام عورت کی محبت کے اظہار کے طور پر تعمیر کرائی تھی جس سے نے شادی کی تھی ـایک خاص بات یہ تھی کہ میر خدابخش ٹالپر کا کردار اس عمارت کے حوالے سے بھی مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ـ ان حقائق کو درست انداز میں پیش کر کے اس کردار سے انصاف کرنے کی بھی ضروت ھے
Mian mushabbar thaheem. Sweden. Jan 13, 2016 10:09pm
excellent.
Usman Rahookro Jan 13, 2016 11:10pm
buht acha artical hai..historycal place sahib mahel par abubaker shaikh ne buht khobsorat andaz main likha hai
Partab Shivani Jan 13, 2016 11:24pm
Good to know very super write up
غلام شبیر لغاری Jan 13, 2016 11:38pm
صاحبا محل ایک دیوانگی کا مظھر ابوبکر شیخ نے اچہے عنوان اور فوٹوگرافی کے ساتھ جس طرح تاریخی حوالوں کے ساتہ خوبصورت لفظوں میں لکھا ھۓ صاحبا محل پر ایسا خوبصورت آرٹیکل پہلے کسی نے نہیں لکھا اس پر لکھاری کو داد نا دینا ناانصافی ہوگی غلام شبیر لغاری ٹنڈوباگو
zulfiqar ali Lahore Jan 14, 2016 12:29am
very interesting and informative............ keep going
suleman mandhro Jan 14, 2016 02:06am
ادا ابو بکر بھت اچھی کوشش ھے آپ نے بدین سے باھر بیٹھے ھوئے ان افراد کو اس محل کے متعلق اپنے جملوں کی جادوگری میں آخر تک جکڑ رکھا جو واقعے آپ کے قلم کا کمال ھے جس پر جتنی بھی داد دی جائے کم ھے مگر ایک بات ادا حفیظ کی بھی ٹھیک ھے کہ اصل حقائق کی نشاندھی بھی ضروری ھے مگر کیا کریں آج کل ھماری سوسائٹی کو مصحلت پسندی نے گھیر رکھا ھے پھر بھی اچھے لکھاری اپنے قلم سے حقیقت کو کسی نہ کسی حد تک عیان کرنے کی کوشش کرتے ھیں وہ گذارش میٹھے لفظوں کے ذریعے آپ سے بھی ھوگی۔۔
suleman mandhro Jan 14, 2016 02:09am
ادا ابوبکر آپ نے ایک مرتبہ پھر پڑھنے والوں کو اپنے لکھنے کے سحر میں قابو کرلیا جو بات قابل تعریف ھے مگر ادا حفیظ کی بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ھے
Mumtaz kunbher Jan 14, 2016 09:31am
Sir very good story and classical style in your writing congratulation.
عادل لغاری Jan 14, 2016 09:42am
ڈان پر ابوبکر شیخ کالم لکھتے ہیں ان کا جواب نھین میں جب صاحب محل پر تحریر کیا ہوا بلاگ پڑہ رھا تھا تو ایسا محسوس ھوتا کے جیسے محل کے تعمیراتی کام سے لے کر سامان لے کر آنے والی بیل گاڑیون پر سفر کر رہا ہوں ۔لکھاری کا انداز حسن ھۓ جو پڑھنے والا اس کو ایک سرور و سکون آ جاتا ھۓ اور تحریر مختصر لگتی ھۓ کیونکے جی ابھی پڑھنے کو کر رہا ہوتا ھۓ ابوبکر شیخ کا اور ڈان کا شکریہ ادا کرنا چاھیۓ کے ایسی کمال کی تحریریں پڑھنے کو مل رہی ھیں
Mazhar Sameja Jan 14, 2016 10:55am
very nice
Muhammad Imran Arshid Jan 14, 2016 12:13pm
اگر میر حاجی خدا بخش تالپور صاحب نے ایک محل بنانے کی بجائے اگر اپنی بیگم کی یاد میں کوئی ہاسپٹل یا یونیورسٹی بنائی ہوتی تو پورے علاقے کے لوگ اور انکی آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوتیں اور تالپور صاحب اور صاحب بیگم کے لئے صدقہ جاریہ ہوتا۔ ایک بے کار عمارت بنانے انہوں نے صرف اپنا اور قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا۔ یہی مسلمان اشرافیہ اور مغرب کے اشرافیہ کی سوچ کا فرق ہے جس کی وجہ سے آج ہم بحثیت قوم دنیا میں سب سے پیچھے ہیں۔ انہوں نے ہاسپٹلز یونیورسٹیاں اور ریسرچ کرنے والے ادارے بنائے اور ہم نے بے کا مقبرے۔
Jibran Zaib Jan 14, 2016 12:15pm
Salam such a very nice research on Sahib Mahal. very interesting & appreciated.
Shahzad Jan 14, 2016 12:26pm
Sir, sooooooooo much infirmative, Shahzad
Kamran Khan Jan 14, 2016 01:06pm
Very Nice my Dear please keep it up Kamran Khan Regards,
یمین الاسلام زبیری Jan 15, 2016 06:34pm
بہت خوبصورت تحریر ہے۔ یقیناً پاکستان کا چپہ چپہ تاریخی ماخزوں سے بھرا پڑا ہے۔ میں طرز تعمیر کا ماہر تو نہیں ہوں لیکن جو سمجھ میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ اس عمارت کا طرز تعمیر انگریزی طرز سے زیادہ ملتا ہے۔ خاص طور پر اس کے گنبد انگریزی طرز سے زیادہ متاثر لگتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جدید بھی ہے۔ تصویروں میں اس کے مختلف حصے، اگر یہ اسی وقت کے بنے ہوئے ہیں تو، دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرز پر ساٹھ ستر کی دہایوں میں عمارات بن رہی تھیں یہ طرز ان سے ملتا جلتا ہے۔
یمین الاسلام زبیری Jan 16, 2016 12:53am
@نجیب احمد سنگھیڑہ آپ سے سنگھییرہ صاحب نوک جھونک اچھی لگتی ہے، اس لیے: ایک شاعر نے لفظوں کا سہارا لے کر ۃ ایک شہنشاہ کی محبت کا اڑایا ہے مذاق۔