• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
شائع January 1, 2016 اپ ڈیٹ November 19, 2018

راولپنڈی کو راول قبیلے نے آباد کیا جو راول جوگی بھی کہلاتے تھے۔ راول قبیلے سے منسوب ایک گاؤں "راولاں" ہوا کرتا تھا جہاں اب راول ڈیم بن چکا ہے۔ افغانستان اور کشمیر کی گزرگاہ ہونے کی وجہ یہ علاقہ ہمیشہ ہی عسکری و معاشی اہمیت کا حامل رہا ہے۔

نئے راول پنڈی کی تاریخ انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے جب 1851ء میں لارڈ ڈل ہوزی نے اس شہر کو برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بنایا اور یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی کی بنیاد رکھی۔ یوں اس شہر میں انگریز آیا۔ روزگار اور بہتر مستقبل کے مواقع پیدا ہوئے تو نگر نگر سے لوگ حصول روزگار کے لئے یہاں آ بسے۔

کچھ اہل حرفہ تھے اور کچھ تاجر تھے، راہی بعد میں مقامی ہوئے۔ معاشرت کی رنگا رنگی بڑھی، مختلف مذاہب اور زبانیں بولنے والے اس شہر میں آباد ہوئے۔ شہر کی مذہبی، ثقافتی اور لسانی تصویر میں ہر رنگ سما گیا، یہ نیا راولپنڈی تھا جس نے چھاؤنی کے بننے کے بعد وسعت پائی۔

1941 کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی شہر کی 57 فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ راولپنڈی شہر میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، مسیحی، جین مت، پارسی، بدھ مت اور یہودی آباد تھے۔

تقسیم کے بعد پارسیوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی۔ آج شہر میں بیس کے قریب پارسی رہ رہے ہیں۔ راولپنڈی کی مصروف ترین سڑک مری روڈ سے متصل پارسی قبرستان پارسیوں کی ایک یادگار ہے۔ اس قبرستان میں ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ قدیم قبریں موجود ہیں۔

قبرستان کا داخلی دروازہ.
قبرستان کا داخلی دروازہ.

1898 میں کنواں کھدوایا گیا اور دیوار تعمیر کروائی گئی.
1898 میں کنواں کھدوایا گیا اور دیوار تعمیر کروائی گئی.

مذہبی رسومات ان کمروں میں ادا کی جاتی ہیں.
مذہبی رسومات ان کمروں میں ادا کی جاتی ہیں.

مذہبی رسومات ان کمروں میں ادا کی جاتی ہیں.
مذہبی رسومات ان کمروں میں ادا کی جاتی ہیں.

پارسی کمیونٹی کے لوگ کب راولپنڈی میں آ بسے، اس بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن خیال یہ کیا جاتا ہے کہ چھاؤنی بننے کے بعد کاروبار کی غرض سے آ بسے۔ پارسی یا زرتشت مذہب کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے جن کا اصل وطن ایران ہے۔ دسویں صدی میں زرتشت برصغیر کے مغربی ساحلوں پر آکر آباد ہوئے اور ایران کا ہونے کی وجہ سے پارسی نام سے شناخت پائی۔

1898 میں قبرستان کے گرد دیوار کھڑی کی گئی اور کنواں کھودا گیا۔ قبرستان کی قدیم ترین قبر پر 1860 کی تاریخ درج ہے۔ کیونکہ اس حوالے سے کوئی تاریخی دستاویز دستیاب نہیں کہ واقعاً اس قبرستان کی بنیاد کب پڑی، اس لیے اس قبر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قبرستان کی شروعات کا سن اسی کے آس پاس ہوگا۔

قبرستان کی قدیم ترین قبر 1860 کی ہے.
قبرستان کی قدیم ترین قبر 1860 کی ہے.

کمروں کے اندر پارسی مذہب کے بانی زرتشت کی تصاویر آویزاں ہیں.
کمروں کے اندر پارسی مذہب کے بانی زرتشت کی تصاویر آویزاں ہیں.

نیک خیالات، نیک الفاظ، نیک اعمال پارسی مذہب کی بنیادی تعلیمات ہیں.
نیک خیالات، نیک الفاظ، نیک اعمال پارسی مذہب کی بنیادی تعلیمات ہیں.

قبرستان کے احاطے میں نئی اور پرانی کئی قبریں موجود ہیں.
قبرستان کے احاطے میں نئی اور پرانی کئی قبریں موجود ہیں.

1879 کی ایک قبر.
1879 کی ایک قبر.

قبرستان میں روشنی کے لیے نصب ایک قدیم لیمپ.
قبرستان میں روشنی کے لیے نصب ایک قدیم لیمپ.

قبرستان کی کچھ زمین پر لینڈ مافیا کی نظریں ہیں جس کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے.
قبرستان کی کچھ زمین پر لینڈ مافیا کی نظریں ہیں جس کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے.

قبروں کے کتبے زمانہ قدیم کے 'فرمان' کی صورت میں بنائے گئے ہیں.
قبروں کے کتبے زمانہ قدیم کے 'فرمان' کی صورت میں بنائے گئے ہیں.

پارسی انجمن راولپنڈی کے صدر اور ممبر قومی اسمبلی اسفنیار بھنڈارا نے پارسی کمیونٹی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی کے مقابلے میں پارسی کمیونٹی کی کثیر تعداد کراچی میں آباد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی میں آباد پارسیوں میں سے زیادہ تر تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان چلے گئے، جبکہ حالیہ برسوں میں کچھ امریکا اور یورپ ہجرت کر گئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قبرستان کے کچھ حصے کو لینڈ مافیا سے خطرہ ہے جس کا مقدمہ بھی عدالت میں دائر ہے۔ اس حوالے سے قبرستان میں اشتہار بھی آویزاں ہے۔ پارسی قبرستان شہر کی تکثیری معاشرت کی زندہ مثال ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

عماد علی

عماد علی فری لانس صحافی ہیں اور ادب، فلسفے، آرٹ اور ثقافت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اسلام آباد چیپٹر کے ممبر بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: OldRwp@ ان کا ای میل ایڈریس Rationalist​[email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

farhan ziaf Jan 01, 2016 02:42pm
Good to know that my city has such minorities still living!!!. @Author, whats the exact location of it?
junaid ahmed Jan 01, 2016 04:33pm
عماد علی آپ کی اس خطے کے اس تقافتی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش قابل تعریف ہے۔ اس کی آج اشد ضرورت ہے جب یہ سرزمین مزہبی منافرت میں مبتلا ہوکر لہو لہان ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق لینے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ کسی سخت گیرروایات و ثقافت کی۔ ہماری تاریخ امن و آتشی، قربانی اور باہمی اتحاد سے بھری پڑی ہے جہاں ہر مزہب مسلک کے لوگ آباد چلے آرہے ہیں۔
samo Shamshad Jan 01, 2016 05:20pm
Noce information. but one issue is that land Mafia is active to grab the land of Graveyard, how ever, authorities are still in deep slumber. It is the need of time to protect these sort of assets.
noone Jan 01, 2016 10:17pm
this is located behinde sauq-e-idrees, the jewelry market. the market it self was a land grabbing activity carried by sethi sahb in late 1970s. all the beauty of the city is being taken away ib the name of development, not a single ground is left for boys to play free cricket
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 01, 2016 11:54pm
بہت معلوماتی تحریر قابل تعریف ۔
avarah Jan 02, 2016 12:38am
yes I remember, when a huge mafia erected a jewellers market on the property of this cemetry with the help of a divisional commissoner of this city during 80s and the case about disputed property is in courts since then. I suppose no decision will be taken by the courts until the case dies itself.
avarah Jan 02, 2016 12:41am
@farhan ziaf location jewellers market murree road former name souqi Idrees
Askari Jan 02, 2016 03:24am
زبردست ۔ معلوماتی