• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار

شائع December 18, 2015 اپ ڈیٹ December 19, 2015

کراچی: محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے سانحہ صفورہ میں ملوث 4 انتہائی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی گرفتاری ظاہر کی ہے.

کراچی کے علاقے کلفٹن میں کارروائی کرتے ہوئے سانحہ صفورا کے مبینہ مالی معاون عادل مسعود بٹ کو گرفتار کیا گیا جو کراچی میں کالج آف اکاؤنٹنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز (CAMS) نامی ایک انسٹیٹیوٹ کے وائس چانسلر ہیں.

انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ گرفتار افراد میں خالد یوسف باری، سلیم احمد، محمد سلیمان اور عادل مسعود بٹ شامل ہیں.

مزید پڑھیں: لاہور: لشکر جھنگوی کے 6 'دہشت گرد' گرفتار

اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزم

انہوں نے بتایا کہ عادل مسعود بٹ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب حیثیت شخص ہے جس نے سینٹ پیٹرک اور سینٹ پال سے تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 1987 میں امریکا چلا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا میں ملزم نے انڈیانا یونیورسٹی سے بی بی اے اور 1992 میں نیو یارک فورڈیم یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: صفورا گوٹھ ملزمان، بوہری مسجد حملے میں بھی ملوث

سی ٹی ڈی انچارج کے مطابق 1994 میں ملزم نے اپنے دیگر پارٹنرز کے ساتھ مل کر کالج آف اکاؤنٹننگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (CAMS) کے نام سے انسٹیٹیوٹ بنایا، اس وقت انسٹیٹیوٹ کی 3 شاخیں ہیں جن میں 2000 کے قریب طالب علم زیر تعلیم ہیں۔

ڈان نیوز نے سی ٹی ڈی کے حوالے سے بتایا کہ ملزم عادل مسعود بٹ سانحہ صفورہ ميں ملوث دہشت گرد سعد عزيز عرف ٹن ٹن کا بزنس پارٹنر ہے جبکہ اس پر القاعدہ کو فنڈنگ کرنے کا بھی الزام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'

سی ٹی ڈی نے بتایا کہ ملزم عادل مسعود بٹ کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین سے بھی شواہد سامنے آئے۔

سانحے کے ملزم خالد يوسف نے جے آئی ٹی کے سامنے عادل مسعود کو سہولت کار قرار ديا تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتار ملزم 90 روزہ ريمانڈ پر سی ٹی ڈی کی تحويل ميں ہے جبکہ الزامات پرمزيد تحقیقات جاری ہیں۔

تعلیمی اداروں میں دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک

راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ ان گرفتاریوں کی روشی میں ایک بات واضح ہوکر سامنے آرہی ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں بھی اپنے نیٹ ورک قائم کرلیے ہیں اور اسے مزید فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سی ٹی ڈی سندھ اس حوالے سے کراچی اور سندھ کی تمام جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں ان تنظیموں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔

خواتین کے نیٹ ورک کا انکشاف

پریس کانفرنس کے دوران راجہ عمر خطاب نے انکشاف کیا کہ ان گرفتاریوں سے خواتین کے ایک مضبوط نیٹ ورک کی نشاندہی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خواتین انتہائی منظم انداز میں درس و تدریس کی روشنی میں خواتین کی ذہن سازی کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خواتین دہشت گردوں کی شادیاں بھی کراتی ہیں اور فنڈز جمع کرتی ہیں۔

سی ٹی ڈی انچارج کا مزید کہنا تھا کہ ان کی مزید نگرانی کی جارہی ہے اور مزید گرفتاریاں بھی کی جائیں گی۔

سانحہ صفورا

خیال رہے کہ کراچی میں صفورا چوک کے قریب دہشت گردوں نے ایک بس کو ہدف بنایا جس میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سوار تھے۔

واقعے میں 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بعدازاں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا تھا کہ سانحہ صفورا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں ایک ہی گروہ ملوث ہے جس کے ماسٹر مائنڈ سمیت چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے گرفتار ملزمان کے حوالے سے میڈیا کو تفصیلات فراہم کیا اور بتایا کہ اس گروہ میں شامل ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چاروں گرفتار ملزمان میں سبین محمود کے قتل کا ماسٹر مائنڈ سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جان، محمد اظہر عشرت عرف ماجد اور حافظ ناصر اور ایک اور ملزم شامل ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعد عزیز آئی بی اے سے، محمد اظہر سرسید یونیورسٹی سے الیکٹریکٹکل انجینئرنگ جب کہ حافظ ماجد کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کر چکا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

تبصرے (1) بند ہیں

Haider Shah Dec 19, 2015 10:24am
It's alarming for Govt of Pakistan precisely "Ministry of Education" to deep down its comprehensive study of root cause analysis. it take a while to become Terrorist, and who knows how many other Educated man and women sleeping cell do exist? Nothing can changed if the authorities have their interest letting them to be radicalise as an opportunity in near future.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024