آرمی پبلک اسکول حملہ: ثاقب غنی–عمر19
والدین : میجر ریٹائرڈ شیر غنی اور عفت قمر
بہن بھائی : 30 سالہ امبرین غنی، 25 سالہ عدنان غنی، 25 سالہ سحرش غنی 22 سالہ مہوش غنی
" ہمارا کالج حملے کی زد میں ہے، فائرنگ ہورہی ہے، پلیز دعا کریں "، یہ وہ آخری پیغام ہے جو ثاقب غنی نے اپنی والدہ کو بھیجا۔
ثاقب کا کزن اسفندیار بتایا ہے کہ وہ مستحقین کی مدد کرتا تھا۔ جب اسے 10 ویں کلاس میں پہنچا تو اسے معلوم تھا کہ اس کی کلاس کا ایک ساتھی نئے یونیفارم کو لینے سے قاصر ہے، اپنے والدین کو آگاہ کیے بغیر ثاقب نے ایک نیا یونیفارم خریدا اور اپنے کلاس کے ساتھی کو تحفہ دے دیا۔
اس کے والدین کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ بہت متاثر ہوئے۔
ثاقب ایک سول انجنیئر بننا چاہتا تھا۔اس کی بہن مہوش کے مطابق وہ اپنے ریٹائر فوجی میجر والد سے بھی متاثر تھا اور ایک فوجی افسر کی حیثیت سے عسکریت پسندی کے خلاف لڑنے کی خواہش رکھتا تھا۔
اسے گاڑیوں کی ڈرائیونگ اور موٹرسائیکل چلانے کا شوق تھا۔ فوٹوگرافی اور گلوکاری اس کے مشاغل تھے، جبکہ وہ اپنے دوستوں اور کزنز میں گلوکاری کی وجہ سے مقبول تھا۔