• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
شائع December 8, 2015 اپ ڈیٹ December 16, 2015

آرمی پبلک اسکول حملہ: ابرار زاہد –عمر18

والدین : زاہد رشید اور شاہدہ بانو
بہن بھائی : محمد اذکار زاہد (15 سال)، محمد ابصار زاہد (11 سال)

اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا ابرار ایک سخت محنت کرنے والا طالبعلم اور ذمہ دار نوجوان تھا۔ اس کے والد بتاتے ہیں کہ جب ان کا بیٹا زندہ تھا تو انہیں اپنے چھوٹے بچوں کی فکر نہیں کرنا پڑتی تھی کیونکہ ابرار ان کا خیال والدین کی طرح رکھتا تھا۔ وہ اپنی والدہ کی بھی زیادہ دیکھ بھال کرتا تھا اور اکثر ان کے ساتھ سودا سلف لینے کے لیے جاتا یا انہیں طبی چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جاتا۔

اسے کمپیوٹر ہارڈو ویئر اور سافٹ ویئر کا شوق تھا اور آگے جاکر ایک انجنیئر بننے کی توقع کرتا تھا۔

اسے کرکٹ سے محبت تھی اور اکثر وہ گھر کے باہر اپنے دوستوں کے کھیلتا۔ وہ کبھی بھی پاکستان کوئی کرکٹ میچ دیکھنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور کسی اہم میچ کے موقع پر اسے بڑے گروپ کے ساتھ دیکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کرتا۔

ابرار کو تین گولیاں ماری گئی تھیں، ریڑھ کی ہڈی، سینے اور ٹانگ پر۔ وہ اے پی ایس حملے کے ایک ہفتے بعد تک زندگی اور موت کی جنگ لڑتا رہا مگر 23 دسمبر کو زخموں کی تاب نہ لاکر دنیا سے چل بسا۔

ابرار کی والدہ اسے بہت زیادہ یاد کرتی ہیں اور اس کے کسی بھی ذکر پر بکھر کر رہ جاتی ہیں، وہ ابرار کی اشیائ، تصاویر، ٹرافیوں، کتابوں، اسکول بیگ کا اب بھی خیال رکھتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے کبھی بھول نہیں سکیں گی۔