آرمی پبلک اسکول حملہ: محمد شہیر خان–عمر 14
والدین: محمد طاہر خان، شگفتہ
بہن بھائی: 20 سالہ مومنہ خان، 16 سالہ محمد منیب خان، 12 سالہ طوبیٰ
شہیر کی والدہ کے لیے اپنے بیٹے کے بے رحمانہ قتل کو قبول کرنا آج بھی بہت مشکل ہے، وہ اب بھی شہیر کی وہ ٹائی اپنے ساتھ رکھتی ہیں، جو وہ اسکول پہن کر جاتے تھے اور جس پر واضح طور پر گولیوں سے متاثر ہونے کے نشانات موجود ہیں۔
شہیر ایک شرارتی طالبعلم تھے، اُن کے والد ماضی کا قصہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ آرمی پبلک اسکول کے لیب اسسٹنٹ، لیب کو لاک کرنا بھول گئے، جس کے بعد شہیر اور ان کے دوست لیب پہنچ کر سیدھا کمپیوٹرز کی طرف گئے اور انھوں نے ہر ماؤس سے ٹریک بالز نکال لیے، لیکن جیسے ہی انھوں نے ٹیچر کو آتے ہوئے دیکھا، شہیر نے سارے ٹریک بالز اپنے دوست کی جیب میں ڈال دیئے اور ٹیچز کے پوچھنے پر بتایا کہ انھوں نے کچھ نہیں کیا، ہاں لیکن دوسرے طالبعلم کی جیب کی تلاشی لی جاسکتی ہے۔
شہیر کو کمپیوٹر گیمزبہت پسند تھے اور وہ اپنے والدین سے پلے اسٹیشن 4 لے کر دینے کی فرمائش کر رہے تھے، جس کی قیمت 48 ہزار روپے ہے اور جب ان کے والدین نے کہا کہ انھیں پلے اسٹیشن صرف اسی صورت میں لے کر دیا جائے گا، جب وہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے تو شرارتی شہیر نے خود سے اپنا رزلٹ کارڈ بنا لیا تاکہ انھیں گفٹ مل سکے۔
شہیر کے گھر والے بہت بہادری کامظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اب بھی وہ انھیں شدت سے یاد کرتے ہیں۔