آرمی پبلک اسکول حملہ: محمد عبد اللہ ظفر–عمر 14
والدین کا نام: مسٹر اور مسز محمد ارشد ظفر
بھائی بہن: 12 سالہ محمد عبید اور 4 سالہ علی موسیٰ
عبد اللہ کی والدہ اسے یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچہ ہونے کے باوجود عبد اللہ کبھی بچوں کی طرح خوشیوں بھری زندگی نہیں جی سکا کیونکہ 2 سال قبل اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح نہ ہی مذاق کرتا تھا اور نہ شرارتیں۔ رات کو جب سب گھر والے چین سے سوجاتے تھے، عبد اللہ اٹھ کر تمام دروازیں چیک کرتا کہ کہیں کوئی دروازہ کھلا نہ رہ گیا ہو۔
عبد اللہ اپنی والدہ سے بہت قریب تھا اور ان کے لیے اس کا پیار اس کی بنائی ہوئی ڈرائینگز سے بھی جھلکتا تھا (تصویر منسلک ہے)۔ وہ بڑوں کا بہت ادب کرتا تھا اور جب بھی کسی کے قریب سے گزرتا، اسے سلام کرتا تھا۔
آرمی میں بھرتی ہونے کی خواہش رکھنے والا عبد اللہ اپنی جماعت کا پوزیشن ہولڈر بھی تھا اور ہمیشہ جماعت میں پہلی پانچ پوزیشنز میں سے کوئی نہ کوئی پوزیشن حاصل کرتا تھا۔ وہ نہ صرف پڑھائی میں ہوشیار تھا بلکہ تخلیقی ذہن بھی رکھتا تھا اور اپنی پڑھائی کے لیے اس نے حساب کا فارمولہ بھی بنایا تھا (تصویر منسلک ہے)۔
عبد اللہ نہ صرف پڑھائی میں ہوشیار تھا بلکہ اسے کرکٹ کھیلنے کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا جبکہ اسے کمپیوٹر گیمز کا بھی بہت شوق تھا۔
وہ کھانے کا بھی شوقین تھا اور اسے پِزا، انڈا پراٹھا، نوڈلز اور فاسٹ فوڈ ڈشز کھانا بہت پسند تھا۔ عبد اللہ کو جانور پالنے کا بھی بہت شوق تھا اور وہ اپنی والدہ سے اکثر کہتا تھا کہ وہ اسے کتا یا بلی لاکر دیں لیکن اس کی والدہ آبدیدہ ہوکر کہتی ہیں کہ انہوں نے اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں کی۔
ایک خیال رکھنے والے بیٹے کی طرح عبد اللہ اپنی والدہ کو روز رات کو پانی کا گلاس لا کر دیتا اور اگر وہ سوگئی ہوں تو انہیں جگا کر دوائیاں کھانے کا یاد دلاتا۔