• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
شائع December 8, 2015 اپ ڈیٹ December 16, 2015

آرمی پبلک اسکول حملہ: باسط علی سردار –عمر 15

والدین: سردار علی ، صدف سردار
بہن بھائی: 18 سالہ کرن سردار، 16 سالہ ارم سردار، 12 سالہ بشارت علی سردار

خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے گاؤں شاوا سے تعلق رکھنے والے باسط علی سردار کوئی عام نوجوان نہیں تھے۔

اُن کی والدہ کے مطابق وہ ایک ایسے فرمانبردار بیٹے تھے جو گھر کے کاموں، خصوصاً کچن میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔

باسط اپنی والدہ سے پوچھا کرتے تھے کہ انھیں کسی کام مثلاً برتن دھونے یا سبزیاں کاٹنے میں ان کی مدد کی ضرورت تو نہیں بلکہ وہ اکثر مہمانوں کے لیے بھی چائے اور کھانا وغیرہ بنا لیا کرتے تھے۔

ایک ذمہ دار بیٹے کی طرح وہ گھر کا سودا سلف مثلاً آٹا، سبزیاں، گھر اور دیگر اشیاء وغیرہ لانے میں بھی اپنی والدہ کی مدد کیا کرتے تھے۔ باسط اپنے خاندان سے بہت محبت کرتے تھے اور اکثر اپنے گاؤں شاوا جایا کرتے تھے جہاں ان کے دادا دادی ابھی بھی رہائش پذیر ہیں۔

باسط کو گاڑیوں کا بھی شوق تھا اور پانچویں جماعت سے ہی انھوں نے ڈرائیونگ شروع کردی تھی، انھیں دیکھ کر پڑوسی اور اور دیگر لوگ بہت حیران ہوتے تھے کہ اتنا چھوٹا بچہ کیسے ڈرائیونگ کرسکتا ہے۔ باسط کو کھانے پینے کا بھی شوق تھا، خصوصاً بریانی اور فاسٹ فوڈ وہ شوق سے کھاتے تھے۔

اس کے علاوہ انھیں مطالعے اور کرکٹ کھیلنے کا بھی شوق تھا۔ باسط کو جانوروں سے بھی محبت تھی، ایک مرتبہ وہ دو پالتو طوطے لائے لیکن ان کے والد نے انھیں گھر میں پرندوں کوقید کرنے سے منع کیا، جس پر باسط نے طوطوں کو آزاد کردیا۔

باسط ایک کمیشنڈ آفیسر کی حیثیت سے فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ کیڈٹ کالج ٹیسٹ میں ایک مرتبہ ناکامی کے بعد انھوں نے دوسری مرتبہ ٹیسٹ دیا اور کامیاب بھی ہوگئے، یہ الگ بات کہ باسط کے والدین کو ان کا سلیکشن لیٹر ان کی وفات کے بعد موصول ہوا۔