یومِ آزادی: تجدیدِ عہدِ وفا کا دن

اپ ڈیٹ 15 اگست 2015
مسائل کے حل کی طرف سب سے پہلا اور ابتدائی قدم یہ ہے کہ ہم معاشرے کے اس سیٹ اپ میں اپنے کردار اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ AFP/File
مسائل کے حل کی طرف سب سے پہلا اور ابتدائی قدم یہ ہے کہ ہم معاشرے کے اس سیٹ اپ میں اپنے کردار اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ AFP/File

مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری شناخت، میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان بھی۔ اس لفظ "پاکستانی" سے میرا وہ رشتہ ہے جو کسی تتلی کا پروں سے، پنچھی کا اڑان سے، اور کسی شخص کا اپنے نام سے ہوتا ہے۔

یہ شناخت میرے آباء نے بڑی تگ و دو، جدوجہد، اور قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے اور اب اسے برقرار رکھنا اور اس پر فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اپنے آباء کے چھوڑے ہوئے ترکے اور وراثت پر اپنا حق سمجھنا۔ اور صرف میرا ہی کیوں، یہ تو ہر اس شخص کا حق ہے جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا ہے، اور اپنے ساتھ یہ پہچان رکھتا ہے۔

گذشتہ 68 سالوں میں اس ملک میں جو نسلیں پیدا اور جوان ہوئی ہیں، ان کی سوچ، سمجھ اور خیالات میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل و صورتحال اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور روز مرّہ مسائل کا بڑی حد تک عمل دخل ہے۔

آج کی نسل پاکستان سے محبّت تو ضرور کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خون اور گھٹّی میں شامل ہے لیکن محبّت کا وہ جنون اور عشق جو دیوانگی کی حد تک ہمیں اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا، آج مفقود ہے۔

پڑھیے: پاکستان: ہم سدھاریں گے

کسی سیانے کا قول ہے کہ محبّت قربانی مانگتی ہے، عشق صلے سے بے پرواہ ہوتا ہے، اور پیار دینے اور دیے جانے کا نام ہے۔ اور اگر اس پہلو سے پرکھا جائے تو سب سے پہلے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ اجتماعی سطح پر یہ سوال اٹھانے سے پہلے آئیے ذرا انفرادی طور پر خود سے یہ سوال پوچھیں۔

ملک بھر میں صفائی، گندگی، اور بلدیاتی اداروں کی نااہلیوں پر تبصرہ کرتے ہم خود بھی ایسے ہی لوگوں میں شاملِ ہیں جو گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کھڑکی کھول کر ریپر اور تھیلیاں باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ ٹریفک جام میں پھنسنے پر ٹریفک پولیس کو برا بھلا کہتے کہتے ہم خود بھی کئی گاڑیوں کا راستہ روکتے خود پہلے نکل جانے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ رشوت کو برا کہتے اور رشوت لینے والے افسروں اور اداروں پر لعنت ملامت کرتے ہم خود بھی ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ یا دیگر کاغذات بنوانے، یہاں تک کہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر (جو کہ سراسر ہماری غلطی ہوتی ہے) چالان کروانے کے بجائے رشوت دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

تعلیم کے معیار اور تعلیمی اداروں میں تفریق پر ماتم کرتے ہم خود اس سسٹم میں تبدیلی لانے کے بجائے کوچنگ سینٹرز اور پرائیویٹ ٹیوشن کے کلچر کر فروغ دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ بجلی کے بحران پر آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ کنڈا سسٹم پر اپنے گھروں میں اے سی چلانے اور بجلی چوری کے مرتکب ہونے والے بھی تو ہم ہی ہیں۔

تصاویر: پاکستان کو سالگرہ مبارک!

ہو سکتا ہے کہ اکثریت میری اس بات سے اتّفاق نہ کرے اور ماضی کی حکومتوں، اور ان کی پالیسیوں کے علاوہ حکومتِ وقت کی نااہلیوں کو ان تمام مسائل کا سبب قرار دے۔ مجھے اس نقطے سے بھی کلّی اختلاف نہیں کہ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ بحیثیتِ پاکستانی، ہم سب بھی اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں اور اب تو یہ معاملہ سنگینی کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا ہے۔

اور اگر اس غفلت کی بنیادی وجوہات پر نظر دوڑائی جائے تو سب سے پہلی بات جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس ملک کو اپنا سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم انفرادی حیثیتوں میں صرف اپنے گھروں کی چاردیواری کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس چار دیواری سے باہر کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے، نہ تو اس میں اپنے کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے اہم بنانا چاہتے ہیں۔ ملک کو اپنی ذمہ داری سمجھنا تو دور، ہم نے شاید اسے اپنا ماننا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ہر بات کی ذمہ داری دوسروں پر، اداروں پر، معاشرے پر، میڈیا پر، سیاسی رہنماؤں پر، اور حکومت پر ڈال کر ہم اپنے فرائض سے غافل کیسے ہو سکتے ہیں؟

تصاویر: پاکستان کے ماتھے کا جھومر، گانچھے

مسائل کے حل کی طرف سب سے پہلا اور ابتدائی اقدام تو یہ ہے کہ ہم معاشرے کے اس سیٹ اپ میں اپنے کردار اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ اپنے انفرادی کردار کو نبھاتے ہوئے پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سسٹم میں کیسے مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ "اب اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا"، بہت آسان ہے، لیکن اس بگاڑ کو سدھارنے کے لیے پہلا قدم بڑھانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے جو یقیناً بہت ہمت، صبر، اور تحّمل کا متقاضی ہے۔ اور یہ قدم صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جن میں اس وطن سے سچیّ محبّت کا جذبہ ہے، جو اس شناخت اور اس پہچان کو اپنی رگِ جاں سے بھی قریب جانتے ہیں۔

69 واں یومِ آزادی نزدیک ہے تو کیوں نہ اس موقع پر خود سے سوال کریں کہ کیا ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے؟ یا کیا ہم اس پہچان پر واقعی فخر کرنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یقین جانیے کہ راستہ صاف اور منزل نزدیک ہے۔ اٹھیے! اور اس یومِ آزادی پر اپنے ملک و ملّت کے ساتھ ساتھ خود سے بھی یہ تجدیدِ عہدِ وفا کیجے کہ "یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہی ہیں پاسباں اس کے"۔

تبصرے (2) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 14, 2015 06:52pm
پیار، محبت، صبر و شکر، قسمت، اللہ کی رضا، وطن سے محبت، حب الوطنی اور میں اضافہ کے لیے بھارت کو موضوع بحث بنانے کے لیے خبریں صفحہ اول پر شائع کرنا، کنٹرول پر پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو اسے گولہ باری بیان کرنا، دنیا فانی ہے، اصلی دنیا موت کے بعد ہے، اساتذہ اور اپنے بڑوں کا ادب، اچھے شہری بننے کی تلقین و ترغیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہو تو ایجنٹ، غدار، غیرملکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے القابات سے شہری کو نوازا جاتا ہے۔ یہ سب کیوں ہے؟ صرف عوام کو خاموش کرنے کے لیے، انہیں بہلانے کے لیے، انہیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے کہ مبادا کہیں وہ اپنی بھوک، ننگ اور ریاستی تشدد کے خلاف اٹھ نہ سکیں۔ یہ سارے ہتھکنڈے اپر کلاس کے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کی حقیقت سمجھنی چاہیے تاکہ دیکھنے کا راستہ کھل سکے کہ عوام کو ان نعروں نے کیا دیا؟ کیا عوام کی حالت سدھری یا اپر کلاس خاندانوں کی حالت؟ جب تک جنتا بھوکی ہے یہ آزادی جھوٹی ہے
sharminda Aug 14, 2015 09:35pm
Cent percent correct. Society has to stop blaming government and plays its crucial role in every field of life.