متنازع سائبر کرائم بل منظور
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے متنازع انسداد الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2015 کی منظوری دے دی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ مرتبہ سائبر کرائم روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔
مذکورہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی زیرصدارت اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز بل 2015 ، ٹیلی گراف ترمیمی بل 2014 اور گرے ٹریفک میں کمی کا جائزہ لیا گیا جب کہ کمیٹی نے انسداد الیکٹرونک کرائمز بل 2015 کی منظوری دے دی۔
سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہئے
انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔
سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔
عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔
اان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچان اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں