• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ایڈلجی ڈنشا اور نادر شاہ ڈنشا کے مجسموں کی تلاش

شائع April 8, 2015
نادرشاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ — فوٹو اختر بلوچ
نادرشاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ — فوٹو اختر بلوچ
ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ — فوٹو اختر بلوچ
ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ — فوٹو اختر بلوچ

یہ ایک پارسی باپ بیٹے کی کہانی ہے، جنہوں نے کراچی کے شہریوں کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ اس خاندان نے کراچی کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایڈلجی ڈنشا اور ان کے بیٹے نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا نے بھی اپنے والد کی روایات کو برقرار رکھا۔ دونوں باپ بیٹوں نے بغیر کسی معاشی وسیاسی مفاد کے شہر میں تعلیمی ادارے قائم کیے، ہسپتال بنائے اور رہائشی کالونیاں بنائیں۔

ایف۔کے دادا چالجی کے مطابق ان کی خدمات کے جواب میں کراچی کے باسیوں نے انہیں جو کچھ دیا وہ تھے ان کے دو یادگاری مجسمے جو کراچی کے مختلف مقامات پر نصب کیے گئے تھے۔ لیکن دادا نے اپنی کتاب میں یہ نہیں بتایا کہ یہ مجسمے کہاں تھے۔

تقسیم سے قبل کراچی کی خدمت کرنے والوں یا ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قدآور سیاسی شخصیات کے جو مجسمے نصب کیے گئے، وہ اب ان مقامات پر موجود نہیں ہیں۔ ان میں گاندھی جی اور جواہر لال نہرو کے مجسمے بھی شامل ہیں۔ ایڈلجی ڈنشا اور نادر شاہ کے مجسمے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں اس کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔

130 برس قبل ایڈلجی ڈنشا کراچی کے وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے عوام کے لیے 12 ہسپتال تعمیر کروائے۔ 1885 میں Countess of Dufferine Vicereine of India نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے لیے برطانوی راج کی جانب سے سندھ کے تمام باسیوں سے چندے کی درخواست کی گئی۔ اس درخواست کے جواب میں صوبہ بھر سے 10 ہزار روپے کی رقم حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ 5 ہزار روپے لیڈی ڈفرن فنڈ کی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے موصول ہوئے۔

لیکن یہ رقم کسی بھی ہسپتال کی تعمیر کے لیے کافی نہ تھی لہٰذا 6 برس تک ہسپتال کی تعمیر کا کام مکمل نہ ہوسکا۔ ایڈلجی ڈنشا نے ہسپتال کی تعمیر کو یقینی بنانے کے لیے 1894 میں 50 ہزار روپے کا چندہ دیا۔

Her Excellency The Countess of Elgin وائسرائے کے ہمراہ خصوصی طور پر کراچی تشریف لائیں اور عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ ہسپتال کی تعمیر کے دوران کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کی وجہ سے مزید رقم کی ضرورت پڑی جو ہسپتال کی تعمیر کے لیے جمع ہونے والی رقم کا نصف تھا۔ یہ رقم بھی ایڈلجی ڈنشا نے خوش دلی سے فراہم کی۔

نہ صرف یہ بلکہ ہسپتال کے لیے دواؤں کی پہلی کھیپ بھی ان کی جانب سے دی گئی تھی۔ ان کے فرزند نادر شاہ نے ہسپتال کے 5 وارڈوں اور 5 کمروں کے لیے فرنیچر دیا۔ ہسپتال کے لیے عوام کی جانب سے دیے گئے 10 ہزار چندے کے مقابلے میں ڈنشا خاندان نے 85,000 روپے کا چندہ دیا۔

ایمپریس مارکیٹ کے پاس 1882 میں قائم شدہ ایڈلجی ڈنشا چیریٹیبل ڈسپنسری
ایمپریس مارکیٹ کے پاس 1882 میں قائم شدہ ایڈلجی ڈنشا چیریٹیبل ڈسپنسری

ایف۔کے دادا چالجی اپنی کتاب ”تقاریر و تحاریر بابت زرتشتی مذہب، ثقافت اور تہذیب“ میں لکھتے ہیں کہ 10 ہزار کے مقابلے میں 85,000 کی رقم فراہم کرنا ”کیا جگر تھا!“ اسے کہتے ہیں ”زرتشتی جگرا“۔ اس کے علاوہ کراچی میں چلنے والے دومشنری ہسپتال بھی ان کے چندے سے استفادہ کرتے تھے۔

تعلیم کے میدان میں بھی انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ نادار اور غریب طلباء کی مالی مدد کے لیے بمبئی یونیورسٹی کو لاکھوں روپے کے عطیات دیتے تھے۔ کراچی میں ماما پارسی اسکول اور پونا میں سردار دستور گرلز اسکول اس کی مثال ہیں، لیکن تعلیم کے میدان میں اس خاندان کا سب سے بڑا کارنامہ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جسے آج کل NED یونیورسٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلباء کو یہ نہیں معلوم کہ این ای ڈی کس کا مخفف ہے۔

اس یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی سب سے قدیم انجینئرنگ یونیورسٹی کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ جیسے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ایف۔کے دادا چالجی کے مطابق کراچی کے شہریوں نے جناب ایڈلجی ڈنشا اور ان کے فرزند نادر شاہ کی عظیم خدمات کے اعتراف میں ان کے دو مجسمے کراچی میں نصب کیے تھے۔ ہم نے بہت کوشش کی لیکن یہ مجسمے کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ آخر یہ مجسمے گئے تو کہاں گئے۔ ہمیں ان مجسموں کی تلاش تھی لیکن تلاش اب تک بے نتیجہ ہی رہی تھی۔

ہمارے دوست اختر سومرو نے ایک دن ہمیں بتایا کہ وہ پارسی انسٹیٹیوٹ میں ایک لیکچر اٹینڈ کرنے جارہے ہیں۔ ہماری بھی خواہش تھی کہ اس بہانے پارسی انسٹیٹیوٹ کا دورہ کیا جائے، شاید وہیں پر ہمیں ایڈلجی ڈنشا اور نادر شاہ کے مجسموں کا کوئی سراغ مل جائے۔ ہم نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا لیکن انہوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ جن لوگوں کو دعوت دی گئی ہے صرف وہی جاسکتے ہیں۔

اگلے دن انہوں نے ہمیں لیکچر کا حال احوال سنایا۔ ہم نے پوچھا کہ لیکچر کے علاوہ اور کیا تھا، تو کہنے لگے انسٹیٹیوٹ کے سبزہ زار میں ایک مجسمہ نصب تھا۔ بات ختم ہو گئی۔

ہم گھر سے پریس کلب آنے کے لیے مزار قائد سے صدر کو جانے والی سڑک کوریڈور تھری استعمال کرتے ہیں۔ پارکنگ پلازہ سے قبل ٹریفک بری طرح جام تھا۔ ہم نے لائنز ایریا سے صدر جانے والا راستہ استعمال کیا۔ سڑک کے اختتام پر ہمیں پارسی انسٹیٹیوٹ کی تختی نظر آئی۔ ہم خاموشی سے اندر داخل ہوگئے۔ انسٹیٹیوٹ کی عمارت مختصر تھی لیکن عمارت کے اطراف میں ایک بڑا گراؤنڈ اور سبزہ زار تھا۔ سبزہ زار کے دائیں طرف ایک مجسمہ نصب تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ تھا۔ ابھی ہم مجسمے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ دو افراد جو شکل سے گارڈ لگ رہے تھے، ہمارے قریب آئے اور پوچھنے لگے کہ ہم کس کی اجازت سے اندر آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔

ہم نے جواباً بتایا کہ یہاں سے گذر رہے تھے ٹریفک بہت جام تھا تو سوچا کہ تھوڑی دیر سبزہ زار میں بیٹھ جائیں۔ دونوں نے بہت ”ادب“ سے بتایا کہ یہ پبلک پارک نہیں ہے۔ ہم نے معذرت کی اور انسٹیٹیوٹ سے باہر نکل آئے۔ کلب پہنچے تو اختر سومرو سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے انہیں بتایا کہ وہ مجسمہ ایڈلجی ڈنشا کا ہے۔ کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں ہے، میرا دوست کلیم جس نے اس انسٹی ٹیوٹ میں لیکچر رکھوایا تھا اس سے بات کر کے اجازت لے کر تصاویر بھی بنائیں گے۔

ایسے اجازت ناموں کا ہمیں بہ خوبی اندازہ تھا لہٰذا ہم مایوس ہوگئے۔ تقریباً ایک ہفتے بعد کوریڈور تھری پر پھر ٹریفک جام تھا۔ ہم نے پارسی انسٹیٹیوٹ کا راستہ اختیار کیا۔ انسٹی ٹیوٹ کے گیٹ پر بڑی رونق نظر آئی۔ ہم ایک بار پھر اندر داخل ہوگئے۔ اندر میلے کا سماں تھا، مختلف کیمرے لگے ہوئے تھے۔ ریکارڈنگ ہورہی تھی۔ ہم نے ایک صاحب سے معلوم کیا کہ کیا ہورہا ہے تو وہ بولے کہ شوٹنگ ہورہی ہے۔

ہم فوراً باہر نکلے، پریس کلب پہنچے، فوٹو جرنلسٹ اکبر بلوچ کو اپنے ہمراہ لیا، اور انسٹیٹیوٹ پہنچ گئے۔ میں نے ایڈلجی ڈنشا کے مجسمے کی تصاویر بنانا شروع کیں۔ اکبر بلوچ نے ہماری توجہ دوسری جانب مرکوز کروائی، وہاں ایک اور مجسمہ تھا۔ وہ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ تھا۔ ہم نے اس کی بھی جلدی جلدی تصاویر بنائیں۔

ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ
ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ
نادرشاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ
نادرشاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ

اس دوران اکبر نے بتایا کہ مجسمے کے پاس بیٹھے دو نوجوان ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ یار ہمیں تو تصاویر بنانے نہیں دیں یہ لوگ کیسے بنارہے ہیں۔ ہم نے کیمرا فوراً جیب میں ڈالا۔ اتنی دیر میں ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور دریافت کیا کہ ہم کیوں آئے ہیں۔

ہم نے کہا کہ یہاں کے انچارج سے ملنے آئے ہیں۔ وہ ہمیں انچارج کے کمرے میں لے آئے۔ انچارج صاحب نے ہماری آمد کی وجہ دریافت کی۔

ہم: انسٹیٹیوٹ کی تصاویر بنانی ہیں۔

انچارج: (نفی میں سر ہلاتے ہوئے) اس کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو پہلے عہدیداروں سے بات کرنی ہوگی۔

ہم: کسی کا فون نمبر ہی دے دیں۔

انچارج نے اس سے بھی انکار کردیا۔

ہم: وہ کب آتے ہیں؟

انچارج: مہینے میں ایک بار آتے ہیں۔

ہم: اب کب آئیں گے؟

انچارج: ایک میٹنگ تو کل ہوگئی، اگلی ایک ماہ بعد ہوگی، اور کس تاریخ کو ہوگی اس کا کوئی علم نہیں۔

ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انسٹیٹیوٹ سے باہر نکل آئے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ آخر یہ مجسمے انسٹیٹیوٹ کیسے پہنچے اور وہ بھی صیحح سلامت حالت میں۔ صحیح سلامت ہونے پر ہمیں حیرت اس لیے تھی کیونکہ ہم نے ہرچند رائے وشنداس اور ملکہ برطانیہ کا مجسمہ مہوٹہ پیلیس میں دیکھا تھا۔ ہرچند رائے کی گردن غائب تھی، اور ملکہ کے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ ہاں یاد آیا ملکہ کی ناک بھی کٹی ہوئی تھی۔

بہرحال، مجسمے انسٹیٹیوٹ کیسے پہنچے، اس کے لیے کسی پارسی سے بات چیت ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کراچی میں پارسی کم ہوتے جا رہے ہیں اور جو ہیں وہ بات چیت کے لیے راضی نہیں ہوتے۔

ان مجسموں پر جو کچھ لکھا ہے وہ کچھ یوں ہے۔

ایڈلجی ڈنشا کے مجسمے پر موجود تحریر
ایڈلجی ڈنشا کے مجسمے پر موجود تحریر

نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے مجسمے پر موجود تحریر
نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کے مجسمے پر موجود تحریر

ان مجسموں پر آویزاں تختیوں پر ان مقامات کا بھی ذکر ہے جہاں یہ نصب کیے گئے تھے۔ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ جس سڑک پر نصب تھا، وہ سڑک تقسیم ہند سے قبل وکٹوریہ روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اب اس سڑک کا نام عبداللہ ہارون روڈ ہے۔ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ جہاں تھا، اس مقام پر ایک مینار ایستادہ ہے جس پر ایک گھڑیال نصب ہے۔

نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ پہلے یہاں نصب تھا۔
نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ پہلے یہاں نصب تھا۔

اس مقام پر پیلس تھیٹر کا کوئی وجود نہیں اور بونس روڈ تو کب کا فاطمہ جناح روڈ ہو گیا ہے۔ بتوں کی نمائش کا ویسے بھی کسی اسلامی معاشرے میں کوئی تصور نہیں لیکن کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان دونوں چوراہوں کا نام ان دو عظیم ہستیوں سے منسوب کردیا جائے اور ان کی خدمات تحریری طور پر وہاں نصب کردی جائیں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟

— تمام تصاویر بشکریہ اختر بلوچ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (41) بند ہیں

Faisal Apr 08, 2015 05:13pm
Buhut buhut shukriyaa AKHTER BALOCH sahib iss article ka
Junaid Naseer Faroqui Apr 08, 2015 05:52pm
I think even if you ask the faculty of NED university they would know nothing about NadirShah Edulji Dinshaw.... We have no right to eat the fruit if we don't thank the one who planted the tree.
حسن فواد بخاری Apr 08, 2015 08:13pm
اختر بلوچ صاحب آپ نے پھر ایک نایاب حرکت کی ہے اوہ میرا مطلب ہے ایک نایاب تحریر ہے جب بھی آپ میدان تحقیق میں قدم رکھتے ہیں کچھ منفرد موتی ہی ڈھونڈ لاتے ہیں ایک ہی دعا ہے اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
farrukh Apr 08, 2015 08:14pm
..............really nice article
MUKHTAR AHMED BHAI JEE Apr 08, 2015 08:17pm
akhtar baloch sb me ne ap ki aik tharer per comnt likhte huwe is khaish ka izhar kea tha ke karachi ki sarkon per lge maesme ke bare me bhi kuch likhen or ap ne usper likh dala jis ke lie me ap ka dil se shukerea ada kerta hun or aik bar pher is khish ka izhar kerta hun ke mahota palace me khule asman tle pre mazed majesmon ke bare me bhi kuch likhen take nujawan nasel ko agahi mil sake
dawar Apr 08, 2015 08:39pm
Excellent information Akhtar sb. I personally noticed nobody knows these great personalities other than just taking from their blessings.
Qasim Apr 08, 2015 09:35pm
, Dear Akhtar wounder full
Mohsin Soomro Apr 08, 2015 09:55pm
Again A Very Informative Story by Akhtar Balouch Sahab...I was amazed to know about Abbreviation of NED university...i did not know about it...but Thanx to Balouch sahab..Here, i want to tell something to Dawn.com that if Akhtar balouch is working that much hard on Karachi, you have to make a beautiful documentry on Historical Places of Karachi because you have the basic writer of Karachi.Akhtar Balouch is a good researcher and he can give you a huge briefing on Historical places...I am sure it will be taken seriously.
shayan Apr 08, 2015 11:17pm
جتنی بھی تعریف کی جائےکم ہے۔۔۔ خزانے سے کم نہیں یہ علم کے پیاسوں کیلئے۔۔ آپ کی یہ انمول تحریر میں افشاہونےوالےتاریخی واقعات بہت ہی اہمیت کےحامل ہیں
Hussain Badshah Apr 08, 2015 11:47pm
buhut he maloomati article hay,Parsi loag abhi b buhut kam kar rahe henTCF schools b inhon ne he qaim ki hovi hen, ye loag ziada tar shipping line main thay,cyrus cawasji abhi b Cawas Jee and sons k naam se shipping company chala rahe hen ye Ardesher CawasJee k bhai hen jo The City Foundation chalate thay ab es dunya main nahi hen,MellyDinshaw b Dinshaw and & Co. k naam se shipping company chalatay thay, EdaljeeDinshaw k naam se mansoob Road KPT head office & custom House k samne se guzarti hay.
rab Apr 09, 2015 01:03am
akter baloch great work
Afshan Apr 09, 2015 01:05am
Mindblowing work. keep it up :)
Imtiaz.ul.haq Apr 09, 2015 06:58am
Great.we have to safe our history.
ابوبکر بلوچ Apr 09, 2015 09:19am
اختر بلوچ صاحب نے انتہائی عمدہ پائے کی تحقیق کرکے کراچی کے اہم محسنوں سے عوام کو روشناس کرایا،، باقی لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ این ای ڈی یونیورسٹی ہے کیا بلا تو اس کاجواب میراجی نے ہی دیا ہے ۔۔ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
jamal jalalani Apr 09, 2015 09:39am
saine akhter baloch very said to say these words those who build Karachi city no one of them today city only controlled by mafias , but your nice words of writing we have proidue on you
shahid hassan malik Apr 09, 2015 09:40am
great balooch sb, i am also writer but you are great
Shamss Apr 09, 2015 09:50am
@ابوبکر بلوچ As usual you have touched a a unique subject about Karachi and its benefactors.But we as a nation are ungrateful. But by highlighting such great persons and also projecting subjects which we have buried in dust, you are doing a wonderful and appreciable work
ali reza Apr 09, 2015 09:53am
ماشاءاللہ بہت خوب لکھتے ہیں آپ۔ اور تحقیق کا جذبہ آپ کی تحاریر میں بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔ جہاں تک ان دو مجسموں کا تعلق ہے، اگر کسی بھی صورت ان کی داڑھی اگا دی جائے اور پائنچے ٹخنوں سے اوپر اٹھوا دیئے جائیں تو ممکن ہے کہ انہیں دوبارہ کسی چوک میں نصب کر دیا جائے۔
Rehan Ali Apr 09, 2015 11:34am
یہ وہی پارسی انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں حنیف محمد نے تاریخ ساز اننگز کھیل کر ورلڈ ریکارڈ بنایا تھا اور سابق سفیر جناب جمشید مارکر نے کمنٹری کا آغاز بھی یہاں ہونے والے ایک فرسٹ کلاس میچ سے ہی کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ کاش آپ کی تجاویز پر عمل ہو جائے مگر مجھے تو نشاندہی ہونے پر ان کی صحت اور سلامتی کو بڑھتے خطرے کا خوف ہے۔
asif Apr 09, 2015 01:40pm
Well written piece ,,hatsoff to the writer for doing justice with the topic,apart from honouring these two great karachiites,i think their families if still living in karachi should be honoured as well
Naveed Apr 09, 2015 03:52pm
بہت خوب بلوچ صاحب! آپکی تحریر بہت دلچسپ اور معلوماتی ھے۔ کاش! ھم ان مجسموں کو انکی اصل جگہ پر دوبارہ نصب کرسکتے۔ :(
Shamss Apr 09, 2015 05:17pm
As usual you have touched a a unique subject about Karachi and its benefactors.But we as a nation are ungrateful. But by highlighting such great persons and also projecting subjects which we have buried in dust, you are doing a wonderful and appreciable work
Sandeep Apr 09, 2015 06:03pm
Nice and Informative, NED students should read this article. Thank you Akhtar Balouch Sb
Sandeep Apr 09, 2015 06:05pm
Thank you Akhtar Balouch Sb for bringing facts and discover these statues . Hope NED Uni' students may also read.
Haris Bilal Apr 09, 2015 08:57pm
Sir very well written and informative article about two great personalities. I am a graduate from NED Univeristy and want to share that before getting admission I didn't know the NED abbreviation but after getting into university one of our teacher in introductory class told me about it.
Qamar Kazmi Apr 09, 2015 10:55pm
As a student of NED I knew very well what NED stood for.
Qamar Kazmi Apr 09, 2015 11:06pm
I am a graduate of NED University from the late 1970's. We definitely knew very well what NED stood for and appreciated the generosity of one of Karachi's most generous philanthropist of all times . If I recall correctly, when NED campus was being moved from the city to its current location, there was a proposal to change the name to Quaid-i-Azam Engineering University. Evan as students at that time we understood that was a an ill-advised proposal. There are numerous places and institutions that are appropriately named after Quaid-i-Azam, but there is no reason in the world to forget the contributions made by private citizens who loved Karachi. Thank you for an excellent article. I wish there was a full photograph of Nadir Shaw's statue available. article
Arsalan Apr 10, 2015 11:12am
aj kal tu sirf mujassmay toornay ki bat hoti hai, aur ap keh rahy hain k mujassmay lagay jayain woh bhi dosray mazhab walo kay ::)
M.Babar Apr 10, 2015 05:04pm
well every body in NED knows its full form!PS: I am student of NED
nadeem Apr 10, 2015 09:49pm
It is a real and extra ordinary journalism my salute for this team and Edulji family.
Engr. Maria Sahar Apr 11, 2015 10:17am
Thanx alot Mr. Akkhter Baloch for sharing this informative article. I am an NEDian and I just knew its abbreviation earlier like my other fellow friends but now you have highlighted its founders life and his services for our society. Keep it up and may Allah give more power to your pen
Daniyal Apr 11, 2015 12:15pm
I am also a student of NED University each and every person, either a teacher, student or from staff knows what NED stands for and we are really thankful to Mr.Nadirshaw Edulji Dinshaw and Edulji family for each and every benefit we are taking from this great institution
shahzaib Apr 11, 2015 01:02pm
@Junaid Naseer Faroqui kbhe NED aein or wahan ksi bhe srf 10 bndo se jo teacher ya student ho puchen k NED ki full form kia he , phr use bhe apni tehqeeq me likhye ga ktne jante the . proof k sth bat kren 'i think' se nhe , shukria
shahrukh Apr 11, 2015 01:16pm
Nice article....n m also an NEDIAN ...... But always we heard about the full name of NED .... also some body told us about the ppls , who made or established this beautiful university ,,, NEDUET is really a gift from those Parsi Peoples (we have to give them respect n remember them in our prayers)
shahrukh Apr 11, 2015 01:17pm
Beautiful ....
najam Apr 11, 2015 03:48pm
very informative history about true karachiites
maria Apr 11, 2015 08:09pm
i am also a student of Ned university and all knows about Ned abbreviation .Ned abbreviation is also written on Ned prospectus . excellent information great work
Muhammad Shahid Apr 12, 2015 12:04am
I m very Glad. i have gained this knowlge! Thank You!
Syed Mazhar Hasan Apr 12, 2015 06:30pm
Wonderful piece of information, Akhtar Sahab! I am amazed to see the condition of both statues. In my opinion it is the responsibility of NED University (both faculty and students) to put the statues of founders, inside the university (somewhere at the center courtyard). On the other side I am afraid also, from the poison of the extremism - which can damage or destroy these historical master pieces. I will be very happy to be part of any fund to place these statues inside the University.
sharminda Apr 13, 2015 11:39pm
BOHAT KHOOB. SHUKRIYA.
یمین الاسلام زبیری Apr 14, 2015 12:07am
بہت خوب، اختر صاحب بہت خوب، آپ تو نئے زمانے اور کراچی کے سرسید احمد خاں ہوگئے ہیں، انہوں نے بھی آثار الثنادید لکھی تھی، آپ بھی ایسا ہی کچھ کام کررہے ہیں۔ آپ کا کام اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں اقلیتوں جن سے پاکستان کے مسلمان خوامخواہ بدزن ہیں، کے کارناموں کا ذکر بخوبی کیا گیا ہے، اور حق بہ حقدار رسید کا نعرا اس میں موجود ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024