کمرشل تعلیم اور بے بس ریاست
پاکستان میں سیاست میں منافقت و مفاد پرستی، معیشت میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری، بازاروں میں منافع خوری، اشیاء میں ملاوٹ اور تعلیم کے نام پر نوجوان نسل کے ذہنوں کو اپاہج کرنے کا فن سود مند کاروبار بن گیا ہے۔ بدلتے معاشی نظریات کی وجہ سے اب سرمایہ کاری صرف صنعت، سٹاک ایکسچینج، زراعت، کمپنیوں کے شیئرز کی خریداری اور میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے تک محدود نہیں رہی، بلکہ شعبہ تعلیم میں بھی سرمایہ کاری برق رفتاری سے ہو رہی ہے۔
تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد نے چند سالوں میں اپنے تعلیمی منافع کی بنیاد پر دولت بھی اکٹھی کر لی ہے اور سماج کی نظروں میں مسیحا کا درجہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ سرکار کے اسکول میں فیس تو دو سو روپے سالانہ ہے لیکن یہ گارنٹی نہیں ہے کہ اسکول میں پڑھنے والے بچے کو فرنیچر اور چھت بھی میسر آئے گی یا نہیں، جبکہ دوسری جانب ریاست کے مقابلے پر بنائے گئے نجی تعلیمی ادارے بشمول اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز سالانہ دو دو لا کھ روپے فیسیں وصول کر کے والدین کی جیبیں ہلکی کر رہے ہیں۔
پڑھیے: ہمارے تعلیمی نظام کے ثمرات
بڑے اور کئی برانچز والے پرائیویٹ اداروں میں طرح طرح کی سہولیات موجود ہوتی ہیں لیکن گلی گلی کھلے ہوئے پرائیویٹ اسکولوں میں تو شاید ہی کوئی عمارت ایسی ہو، جسے اسکول کے لیے ہی بنایا گیا ہو، ورنہ کسی بنگلے میں کمروں کو ملا کر کلاسیں بنا لی جاتی ہیں اور پورچ یا چھت کو گراؤنڈ کا نام دے دیا جاتا ہے۔
بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی مرکزی چوراہوں پر نجی تعلیمی اداروں کی تشہری مہم کا خرچہ بھی بچوں کی فیسوں سے نکالا جاتا ہے۔ ملک میں ایک طرف بنیادی ڈھانچے سے محروم ریاستی اسکول ہیں تو دوسری جانب شہروں کے برانڈڈ اسکولز، جہاں کے کارپوریٹ کلچر نے اپنے اندر کشش پیدا کر کے والدین کو لوٹنے کا زبردست کاروبار شروع کر رکھا ہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کے دو کروڑ پچاس لاکھ بچوں پر اسکول کے دروازے اسی لیے بند ہیں، کیونکہ اُن کے والدین غربت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ شرحِ تعلیم کی درجہ بندی میں دُنیا کے تمام ملکوں میں سے اسلامی ملک پاکستان 113ویں نمبر پر ہے لیکن ہمیں پھر بھی فخر ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں اور ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اتنی بھاری فیسیں کیوں وصول کی جاتی ہیں، یہ پوچھنے کا اختیار نہ تو صوبوں کے وزراء تعلیم کے پاس ہے اور نہ ہی سیکرٹری اسکولز کے پاس۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو باقی سب اختیار حاصل ہوتے ہیں، صرف اختیار نہیں رہا تو ان نجی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پوچھ گُچھ کا۔
گذشتہ حکومت میں پنجاب میں اسکول ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کے بل کی اسمبلی میں بات ہوئی کہ پرائیویٹ اسکولوں کے نصاب اور فیسوں کو کنٹرول میں لایا جائے، تو صرف چند ہفتوں بعد یہ بل کسی چوہے کے بل میں دبا دیا گیا۔ ریاست ان سرمایہ داروں کے سامنے بالکل بے بس ہے جس نے اپنے پنجے نظامِ تعلیم پر بھی کس لیے ہیں۔ اسی طاقت نے اسمبلی کے تمام نمائندوں کی زبانیں بند کروا دیں کہ نجی تعلیمی اداروں کو ریاست کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: گوسڑو ماستر تعلیم کے لیے خطرہ
پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان اس حد تک طاقتور ہو گئے ہیں کہ وہ ریاست کی پالیسی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ اسکولز آٹھویں جماعت تک قومی و صوبائی نصاب پڑھانے کی بھی پابندی کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، اس لیے گذشتہ تین برسوں سے پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے تحت نجی اسکولوں کے بچوں کو پرچے نہیں دلوائے جا رہے۔
ایک سازش کے تحت ریاستی اسکولوں کو تباہ کیا جارہا ہے اور پرائیویٹ اسکولوں کو مضبوط ہونے کا موقع دیا جارہا ہے۔ ایک طرف اسکولوں میں چار دیواری، فرنیچر اور واش رومز جیسے مسائل ہیں، تو دوسری جانب پنجاب حکومت برٹش قونصل کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں ٹچ بورڈ سسٹم متعارف کرانے کا معاہدہ کرلیتی ہے۔ ملک بھر کے طول و عرض میں جدید دور میں بھی بھٹہ اسکولوں کا رواج ریاست کے نمائندوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ ان بھٹہ اسکولوں کا نقشہ بھی عجب منظر پیش کرتا ہے۔ بھٹے کی آگ میں مزدور اپنے بچوں کے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جل رہا ہوتا ہے تو ساتھ میں کھلے آسمان تلے کرسیوں اور دیگر سہولیات کے بغیر ہی ان بچوں کو روشن مستقبل کے جھوٹے خواب دکھائے جاتے ہیں۔
نہ جانے کب تک قومی سطح پر حکمران عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالتے رہیں گے۔ میرے خیال میں شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری اگرچہ خوش آئند ہے، تاہم پاکستان کے موجودہ ڈھانچے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی نیت کھوٹی ہے اور وہ صرف تعلیم کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجی اداروں کی تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول میں لانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر یہ اقدامات کرنا ہوں گے:
1۔ قومی پیداوار کا چار فیصد تعلیم پر (واقعی) خرچ کرے، اور تعلیمی بجٹ کا پچاس فیصد ترقیاتی کاموں کے لیے وقف ہو۔
2۔ نجی اسکولوں اور سرکاری اسکولوں میں ایک ہی نصابِ تعلیم رائج کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔
3۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں فیسوں کو کنڑول میں لانے کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے جو فیسوں کی بالائی حد مقرر کرے اور تمام نجی اسکولوں میں اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
جانیے: پاکستان کا فرسودہ تعلیمی نصاب
4۔ سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے دو سالہ منصوبہ بنایا جائے اور اس کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے جائیں، تاکہ اسکولوں میں فرنیچر کی کمی، چار دیواری اور کلاس رومز کی کمی کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوسکے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کو تربیت دینے، ٹیچنگ کوالٹی بڑھانے اور اساتذہ کی کمی کو تیزی سے پورا کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
5۔ ہر ضلعے میں نئے سرکاری اسکول کھولے جائیں اور جن یونین کونسلز میں آبادی زیادہ ہے وہاں پر اسکولوں کا تناسب بڑھایا جائے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہر سال اسکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے۔
6۔ میڈیا مالکان کے اسکولوں میں سرمایہ کاری کرنے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ وہ اپنی طاقت کی بناء پر طلباء کے والدین کو لوٹنے کا کاروبار نہ کرسکیں۔
7۔ پرائیویٹ اسکولوں کی رجسٹریشن پالیسی میں تبدیلی لائی جائے اور رجسٹریشن کو فیسوں کے ساتھ منسلک کرنے کا طریقہء کار طے کیا جائے۔
ریاست کو غریب اور متوسط گھرانے کے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ترقی کا واحد راستہ شعبہ تعلیم میں ترقی سے مشروط ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں ناہمواری کا خاتمہ ہوسکے گا بلکہ درج بالا اقدامات کرنے سے معاشرے کے بچوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے گا۔
تبصرے (3) بند ہیں