اسٹیشن پر ٹرینوں کی آمد اور روانگی کے لمحات
راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کے ماسٹر نے پلیٹ فارم نمبر 3 پر ٹہلتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا جسم ٹرین کے ٹائمنگز کی طرح ایک گھڑی کے گرد گھومتا ہے‘۔ اسٹیشن ماسٹر بہت بے چین تھا کیونکہ وہ فکر مند تھا کہ ایک مسافر ٹرین چند لمحوں میں آنے والی ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میرا دن، رات کے 2 بجے شروع ہوتا ہے جب خیبر میل کراچی کیلئے روانہ ہوتی ہے اور اس وقت ختم ہوتا ہے جب دوسرے روز کی درمیانی شب راولپنڈی ایکسپریس لاہور کیلئے روانہ ہوجاتی ہے‘۔
اسٹیشن پر ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن نظر آتا ہے تاہم یہاں مشترکہ توجہ کا مرکز صرف ٹرین ہوتی ہے۔ |
راولپنڈی جنکشن پاکستان کے سب سے زیادہ مصروف اور نمایاں ترین ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے۔ اسٹیشن کی خوبصورت عمارت جو برطانوی سامراج کی یاد دلاتی ہے، پلیٹ فارم جو دن میں کئی بار چمکتا ہے، اس کے انتہائی دلکش گنبد اور پلیٹ فارم پر موجود ایک بڑی سی گھڑی یہ سب مسافروں کی توجہ اپنی جانب مبزول کروائے رکھتے ہیں اور ان کو اس پرانے اسٹیشن پر بور نہیں ہونے دیتے۔
راولپنڈی کا اسٹیشن 1881 میں اس وقت کی برطانوی حکومت کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا جس کا مقصد تھا کہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے کو افغانستان اور خطے کے دیگر علاقوں سے ملایا جاسکے۔
ریلوے اسٹیشن کی زندگی بھی ایک عام آدمی کی زندگی کی طرح ہے۔ اسٹیشن کا منظر بھی عجیب سا ہوتا ہے یہاں کچھ لوگ مسافر ٹرینوں کے لئے انتظار کرتے ہیں، کچھ دیگر شہروں کیلئے سفر کرنے کیلئے آتے ہیں اور کچھ اپنے مہمانوں کو لینے آتے ہیں۔
آپ کو ٹکٹ کانٹرز پر ٹکٹ کے حصول کیلئے لمبی قطاریں نظر آئیں گی، اسٹیشن کے داخلی اور خارجی راستوں پر موجود سیکیورٹی گارڈز کے بیزار چہرے اور ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر سامان منتقل کرنے کیلئے تقریبا پھلانگتے ہوئے قُلی، الغرض یہاں کچھ نا کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔
تقریباََ ایک صدی پورنا ریلوے کا پل جو عوام کو ان کی منزل تک پہچانے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ |
عوامی ایکسپریس کے انتظار میں دو دوست عاطف اور محمد جاوید اسٹیشن پر کھڑے باتیں کررہے تھے۔ اس دوران عاطف کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران کے دور میں خاص طور پر جب فیول کی کمی کا سامنا ہو تو سفر کیلئے ٹرین سے بہتر کوئی سواری نہیں ہے۔
ٹرین کے اسٹیشن آمد پر ہی ہر جانب زندگی دوڑنے لگتی ہے جیسے مردہ اسٹیشن میں کسی نے جان ڈال دی ہو۔ ٹرین کی آمد کے ساتھ پیدا ہونے والی ایک ہلکی مگر سماعتوں پر اثر کرتی دھاتوں کے ٹکروں سے پیدا ہونے والی آواز کے ساتھ ہی اسٹیشن پر ایک زندگی کا احساس ہونے لگتا ہے اور وہ لوگ جو گفتگو میں مصروف ہوتے ہیں ان کے الفاظ بھی ٹرین کی بڑھتی ہوئی آواز کے ساتھ ہی کہیں گم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اسٹیشن پر چائے بیچنے والے ادریس کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا اسٹیشن ہے اورمکمل اسٹیشن پر چائے پہچانا آسان کام نہیں ہے۔ |
انجن کو ٹھنڈا ہونے کیلئے چھوڑتے ہوئے انجن کے ڈرائیور عبدالمجید کا کہنا تھا کہ وہ اس پیشے سے گذشتہ 40 سال سے منسلک ہے اور انھوں نے بہت برے دور دیکھے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید اور نئی ٹیکنالوجی نے ریلوے سسٹم میں آسانیاں پیدا کردی ہیں جس سے انجن کو چلانا آسان ہوگیا ہے۔
اسٹیشن کے ماسٹر اور اس جیسے اسٹیشن پر کام کرنے والے دیگر ملازمین اسی اسٹیشن پر لوگوں کو ان کی منزلوں کیلئے آتا جاتا دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کی تمام ترقیاں گزار دیتے ہیں۔
بائیں جانب اللہ داد اور اس کے ساتھی 'قُلی' حضرات اسٹیشن سے باہر مسافروں کے آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ |
اسٹیشن پر موجود ایک کینٹین کے بیرے محمد ادریس کا کہنا تھا کہ’اسٹیشن کی زندگی بہت مشکل ہے‘۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر میں اس اسٹیشن پر 4 سے 5 سو چائے کے کپ مختلف پلیٹ فارمز پر پہنچاتا ہے۔
1970 کے زمانے کی گھڑی جس کے لئے ہر اسٹیشن پر ایک ملازم موجود ہے جو اس کو ’چابی‘ دیتا ہے۔ |
اسٹیشن کی زندگی سے قُلی حضرات بھی تقریباَ نا خوش ہی نظر آئے۔ اللہ داد اور اس کے ساتھی قُلیوں کا کہنا تھا کہ ان کی تنخواہیں مقرر نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’روزانہ صرف پانچ سو روپے کما کرہم اپنے گھر والوں کی ضروریات کو کیسے پورا کرسکتے ہیں تاہم ہم ہر روز سخت مشقت کرتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں کی زندگی کے علاوہ وہ کسی زندگی کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔
رپورٹ: شیراز حسین