زندگی موت کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے، مطالعہ
اب تک کی ’موت کے بعد زندگی‘ سے متعلق سب سے بڑے سانئنسی مطالعے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ زندگی موت کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔
ایک برطانوی ٹیم نے چار سالوں تک دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کا مطالعہ کیا جس کے دوران ان کے تجربات کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔
مطالعے کے مطابق تقریباً 40 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ جب انہیں طبی طور پر مردہ قرار دے دیا گیا اس کے باوجود انہیں کسی نہ کسی صورت میں ’شعور‘ حاصل تھا۔
اس وقت ماہرین کا ماننا ہے کہ دل کی حرکت رک جانے کے 20 سے 30 سیکنڈز کے اندر ہی دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے اور اس کے بعد کسی بھی قسم کا ’شعور‘ ہونا ممکن نہیں۔
تاہم اس نئے مطالعے میں سائنسدانوں نے ایسے شواہد فراہم کیے جہاں مریضوں نے طبی موت کے تین منٹ بعد تک حقیقی زندگی کے تجربوں کو شیئر کیا اور وہ موت کے بعد اس موقع پر ہونے والے واقعات کو بالکل درست انداز میں بیان کرنے میں کامیاب رہے۔
ریسرچ کے سربراہ اور اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیم پارنیا کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے مریضوں کے تجربات خیالی تصورات پر مبنی ہوتے تھے۔
تاہم ایک شخص نے ’انتہائی قابل اعتماد‘ تجربہ بیان کیا جس کے دوران ڈاکٹر اور نرسیں انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
مریض کا کہنا تھا کہ وہ کمرے کے کنارے سے اپنے آپ کو زندہ کرنے کی کوششوں کا مشاہدہ کررہا تھا۔
ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے پارنیا کا 57 سالہ سوشل ورکر کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ دل کے رک جانے کے بعد دماغ کام نہیں کرسکتا، لیکن اس معاملے میں شعور موت کے تین منٹ بعد تک برقرار رہا۔
انہوں نے بتایا کہ اس شخص نے اس کمرے میں ہونے والی تمام سرگرمیاں بیان کیں تاہم اہم ترین بات انہوں نے مشینوں کی دو ’بلیپ‘ کی آوازوں کے حوالے سے بتائیں جن سے ہمیں اندازہ ہوا کہ موت سے لیکر واپس زندہ کیے جانے کا وقت تین منٹ تھا۔
پارنیا کے مطابق ان کی معلومات بظاہر کافی قابل اعتماد ہیں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا وہ واقعی اس کمرے میں ہوا تھا۔
پارنیا کے مطالعے میں برطانیہ، امریکا اور آسٹریا کے 15 ہسپتالوں کے 2060 مریضوں کو ریسرچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔
پارنیا کا کہنا تھا کہ مطالعے کے نتائج کے بعد اس حوالے سے غیر جانبدار مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔