بچ کے منگو بچ کے!
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کی بات ہے جب 1935 کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منظور ہوا تو اس کا استقبال منٹو صاحب نے 'نیا قانون' نام کا ایک افسانہ لکھ کر کیا۔
افسانے میں ایک کوچوان منگو نیا قانون پاس ہونے کے بعد پہلی صبح جب تانگہ لے کر گھر سے نکلتا ہے تو اس کا خیال ہوتا ہے کہ اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد سب کچھ بدل چکا ہوگا اور اب اسے اپنے پرانے آقا سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
منگو 'بچ کے بچ کے' کی آوازیں لگاتا تانگا ہانکتا اس تبدیلی کے نشے میں تب تک سرشار رہتا ہے جب تک اس کی مڈھ بھیڑ اس گورے سارجنٹ سے نہیں ہو جاتی جو طاقت کے علاوہ بھی ایک آدھ نشے میں مد ہوش تھا۔ اس جھگڑے کے نتیجے میں منگو کو پتا چلتا ہے کہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد بھی یہاں کا کھمبا ویسا ہی لمبا ہے اور یہاں کا ڈھول ویسا ہی گول ہے۔
میں نے بھی جب سے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی اسمبلی سے منظور ہونے کی خبر سنی تھی کافی منگو منگو محسوس کر رہا تھا لیکن بھلا ہو منٹو صاحب کی رضائیوں میں چھپا چھپا کر پڑھے گئے افسانوں کا کہ میں نے کسی سارجنٹ سے جا ٹکرانے سے پہلے مناسب سمجھا کہ تحفظ پاکستان کا آگا پیچھا معلوم کر لوں۔
منٹو صاحب کو لکھنے کے لیے شراب کی ضرورت ہوتی تھی جس کے لیے پیسے وہ ادھر ادھر لوگوں سے پکڑا کرتے تھے، مجھے لکھنے کے لیے عقل پر گزارا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے میں بھی ادھر ادھر دیکھتا ہوں۔
سو ادھر ادھر کے سیانوں سے مانگے تانگے کے تجزیے سے پتا چلا کہ 77، 73، 58، 56، 47، 35 اور ایسے بہت سے موقعوں کی طرح اس قانون میں بھی منگو کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور نتیجہ یہ کہ تحفظ پاکستان کے قانون سے پاکستانیوں کو کون بچائے گا یہ اس قانون میں کہیں نہیں لکھا۔ اب سوچ رہا ہوں کہ منٹو صاحب کے افسانے پڑھوں، شاید کچھ پتا چل سکے، یوں بھی وہ اکثر افسانے لکھنے کے جرم میں پکڑے جاتے تھے اور چھوٹا موٹا جرمانہ دے کر بچ نکلتے تھے۔
خیر ذکر تھا 'نیا قانون' کا جس میں منٹو صاحب نے بتایا تھا کہ ان بھلے دنوں میں منگو مغرب سے پہلے تانگہ واپس لے آتا تھا اور رہے منٹو صاحب تو ان دنوں منہ سونگھنے کا رواج نہیں ہوا تھا اس لیے کوئی پولیس والا اگر کسی شب زندہ دار کو سڑکیں ناپتے پکڑ بھی لیتا تو آوارہ گردی کی دفعہ لگا کر رات حوالات میں گزارنے کی سہولت مہیا کر دیا کرتا تھا۔ صبح مجسٹریٹ منٹو ہو تو نام سن کر اور منگو ہو تو 'پھر پکڑے گئے تو چھوڑوں گا نہیں' کہہ کر ضمانت لے لیا کرتا تھا۔
بھلا ہو منٹو صاحب اور منگو دونوں کا کہ دونوں تحفظ پاکستان کے اس تازہ انتظام سے پہلے چل بسے ورنہ اس قانون کے تحت پکڑے جاتے تو نوے دن گھر والے کیا مجسٹریٹ کی شکل بھی نا دیکھ پاتے۔
منٹو تو خیر نوے دن میں نوے افسانے لکھ لیتے منگو پکڑا جاتا تو نوے دن میں اس کے گھر والے گھوڑا بیچ یا کاٹ کے کھا چکے ہوتے اور باہر آنے کے بعد اس کے پاس بھی افسانے لکھنے اور منٹو صاحب کی طرح بھوکا رہنے کے علاوہ کوئی آپشن نا بچتا۔
یہ بھی عین ممکن تھا کہ اس قانون کے تحت منٹو صاحب کو گرفتار کر نے بعد پولیس نے اسی قانون کے تحت وارنٹ وغیرہ کے تکلف میں پڑے بغیر ایک سراسر قانونی چھاپے میں ان کے گھر سے دھماکہ خیز افسانے برآمد کر لیے ہوتے اور اسی نئے قانوں کے تحت ان سے کہا جاتا سعادت حسن عرف منٹو فحاشی کے الزام میں تو تم جرمانہ دے کر چھوٹ جاتے تھی اب ان سنگین افسانوں کے ذریعے پاکستان کو خطرے میں ڈالنے کا الزام ہے، جان بخشی چاہتے ہو تو ثابت کرو کہ یہ افسانے تم نے نہیں لکھے۔
اگر منٹو اپنے افسانوں اور خود سے اس سلوک کے خلاف احتجاج کے طور پر ایک اور افسانہ لکھنے کا ارادہ ظاہر کر دیتے یا غیض کے عالم میں ان کے منہ سے اس قانون اور اس کو بنانے والوں کے خلاف ایک آدھ بات ایسی نکل جاتی جو حقیقت سے ان کے افسانوں کے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتی تو انہیں یہ بھی سمجھایا جا سکتا تھا کہ دیکھو شکر کرو کہ ہم تمہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنا کا چانس دے رہے ہیں ورنہ ابھی اسی قانون کے تحت گولی مار کر جیل پر حملہ کرنے کی غرض سے جیل آنے والا دہشت گرد بھی قرار دے دیں گے. رہے تمہارے وارث تو تحفظ پاکستان آرڈیننس میں 90 دن ہیں، ایک آئے گا ایک جائے گا سال بھر سارا خاندان اکٹھے بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھا سکے گا جو ویسے بھی تمہارے گھر میں ایک وقت ہی پکتا ہے۔
میں نے اوپر کہیں اس خوشی --اگر اسے خوشی کہا جا سکتا ہو توِ-- کا اظہار کیا ہےِ کہ منٹو صاحب یہ دب دیکھنے سی پہلے چل بسے لیکن میری بہت شدید خواہش ہے کہ وہ آج زندہ ہوتے اور اس افسانے اور اس کے لکھنے والوں کے بارے میں اپنے مخصوص انداز میں کہتے؛
"وہ۔۔۔وہ کہتا ہے کہ یہ قانون ہے۔۔۔ فراڈ ہے سالا۔"
میں منٹو نہیں ہوں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتا، نا ہی نیا قانون لکھ سکتا ہوں لیکن اپنے سب منگو دوستوں سے یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ 'بچ کے منگو بچ کے۔۔۔'
تبصرے (4) بند ہیں