شکر کرو تم مر گئیں
میری پیاری ننھی،
بدقسمتی سے میں تمہاری پیدائش کی خوشیاں نہیں مناؤں گا کیونکہ میں اس سے پہلے ہی تمہارے جنازے میں شرکت کر چکا ہوں-
مجھے کبھی پتہ بھی نہیں چلے گا کہ تمہیں کتنا درد ہوا ہو گا تمہارے نانا اور ماموؤں نے اینٹیں اور پتھر مار مار کر تمہیں اور تمہاری ماں کو ہلاک کر دیا- مجھے بہت افسوس ہے کہ تمہارا باپ بھی تمہاری مدد کو نہ آیا اور نا ہی وہ سب جو کھڑے تم لوگوں کو پٹتا اور مرتا دیکھ رہے تھے-
حالانکہ میں اس موقع پر وہاں موجود نہیں تھا پھر بھی میں اس قتل کا مجرم ہوں کیونکہ میں سالوں سے یہ سب ہوتا دیکھ رہا ہوں کہ تم اور تمہاری ماں کی طرح نہ جانے کتنے غیرت کے نام پر جانوروں کی طرح ذبح کر دئے گئے-
مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہیں پیدا ہونے سے پہلے ہی مر جانے دیا-
زندگی کتنی ہی ظالم سہی پر اس میں بہت سے خوشیوں کے بھی لمحات ہوتے ہیں- تمہیں تو پتا ہی نہیں ہو گا کہ ماں باپ کا پیار کیا ہوتا ہے یا گود کی گرمی کیا ہوتی ہے- اس دنیا کے عجائبات سے تم ناواقف ہی رہیں، نیلا آسمان، چرند پرند، پھول پتے، دریا اور بارش وغیرہ- تمہیں تو کسی اچھی داستان سننے کے جادو یا خود کوئی اچھی کہانی لکھنے کی خوشی کا اندازہ ہی نہیں ہو گا- ہو سکتا ہے کہ تم کسی لاعلاج بیماری کا علاج ڈھونڈ لیتیں یا یہ بھی ممکن تھا کہ تم دنیا کی سب سے خوبصورت تصویر بناتیں-
افسوس، صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور تم اپنی ماں کے رحم سے پیدا ہونے سے پہلے ہی ایک ٹھنڈی قبر میں اتار دی گئیں-
ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شاید ایک طرح سے اچھا ہی ہو کہ شاید تم ایک بہتر جگہ پر ہو بجائے اس کے کہ تم پیدا ہو کر یہ دنیا دیکھتی-
ویسے فکر نہ کرو، تمہارے جیسے نہ جانے کتنے بچے ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں یا ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے جو کہ تمہارے پاس روزانہ پہنچ رہے ہوں گے- اور جب تک میں یہ لکھنا ختم کروں گا تب تک بھی نہ جانے کتنے تمہارے پاس کھیلنے کودنے کے لئے آ چکے ہوں گے- ویسے یہ خاصا غیر متوازن پلے گروپ ہو گا کہ اس میں لڑکیاں لڑکوں سے بہت زیادہ ہوں گی-
دیکھو میری بچی، تم جس نوع سے تعلق رکھتی ہو اسے انسان کہتے ہیں- یہ انسان خدا کی سب سے بہترین اور اعلیٰ مخلوق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں-
میرے لئے تو یہ ارتقاء کی سب سے نچلی سیڑھی پر ہیں- ایک کتا یا بلی بھی تمہارا خیال رکھتے، تمہاری حفاظت کچھ ایسی شدت کے ساتھ کرتے کہ ان سے زیادہ طاقتور جانور تمہیں نقصان پہنچانے سے پہلے دو مرتبہ سوچتے اور جب تم مناسب حد تک مظبوط ہو جاتیں تو وہ تمہیں خود اپنی دنیا تلاشنے اور جاننے کے لئے چھوڑتے-
دیکھو رونا نہیں کہ آنسو تو دنیا کے لئے ہوتے ہیں جنت کے لئے نہیں- شکر کرو کہ جو کچھ ہوا- اب اگر تم پیدا ہو بھی جاتیں تو دس فیصد امکان اس بات کا تھا کہ تم پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہو کر تڑپنے کے بعد مر جاتیں-
اور اگر تم بچ بھی جاتیں تب بھی اس بات کا امکان صرف تیس فیصد تھا کہ تم اسکول جا پاتیں- سولہ سال یا شاید اس سے بھی پہلے تمہاری شادی کسی اجنبی کے ساتھ کر دی جاتی- اور اگر تم شادی سے انکار کرتیں تو تمہیں اس کی سزا میں مار دیا جاتا- اور اگر اس جبری شادی سے بچنے کے لئے تم اپنے گھر سے بھاگتیں تو تمہارا ٹھکانہ یا تو کوئی کوٹھا ہوتا یا پھر تم کسی سڑک پر کھانے کے لئے بھیک مانگ رہی ہوتیں- اور اگر تمہیں کوئی ایسا شخص مل بھی جاتا جسے تم پیار کرتیں اور اس سے شادی بھی کر لیتیں تب بھی تمہارا باپ اور تمہارے بھائی تمہیں مار دیتے-
لہٰذا ساری زندگی کی دکھوں کے بدلے میں تمہیں زیادہ سے زیادہ تین یا چار سال ہی خوش رہنے کا موقع ملتا- یقیناً یہ کوئی اچھا سودا تو نہیں- ایک اینٹ کی مار اور اس کے نتیجے میں موت بہرحال، ہزاروں تھپڑوں، لاتوں، اینٹوں، پتھروں اور ان تیزاب کی شیشیوں سے تو بہتر ہے جو تمہیں اپنی زندگی کے دنوں میں جھیلنا پڑتیں جن سے تمہارا جسم ہی نہیں تمہاری روح بھی زخمی ہو جاتی-
مجھے نہیں معلوم کہ یہ خط کہاں پوسٹ کروں کہ میرے پاس تو تمہارا پتہ بھی نہیں- یہ بھی ایک طرح سے اچھا ہی ہے کیوںکہ میں نہیں چاہتا کہ تمہاری خوشیوں کو ان چند لوگوں کی آہوں اور سسکیوں کی نظر لگ جائے جو تمہارا اور تمہاری ماں کی موت کا ماتم کر رہے ہیں-
میرے سارے پیار کے ساتھ۔۔۔۔۔
لکھاری ایک انجنیئر ہیں جو کہ اب ایک پارٹ ٹائم صحافی بھی ہیں جو کہ غیر روایتی جگہوں پر گھومنا پسند کرتے ہیں جیسے مزارات، ریلوے اسٹیشنز اور بس اسٹاپس-
ترجمہ: شعیب بن جمیل
تبصرے (5) بند ہیں