’یہ گلیاں اتنی ہی میری ہیں جتنی مرد کھلاڑیوں کی‘

اپ ڈیٹ 30 اپريل 2024
کپتان اریزہ حسیب (سامنے والی قطار میں سفید ٹوپی) اور ان کی ٹیم، ٹرافی اور انعامی رقم کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے— تصویر: کھیلو کرکٹ
کپتان اریزہ حسیب (سامنے والی قطار میں سفید ٹوپی) اور ان کی ٹیم، ٹرافی اور انعامی رقم کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے— تصویر: کھیلو کرکٹ

ایک متوسط گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے بچپن سے ہی میں نے اپنے محلے کی گلیوں میں نوجوانوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھا ہے۔ جیسے جیسے سال گزرتے گئے، میرے محلے میں کرکٹ کھیلنے والوں میں نئے چہرے بھی میں نے دیکھے۔ یہ یا تو نئے نوجوانوں کی شمولیت کی وجہ سے تھا یا پھر میرے سامنے کھیلنے والے چھوٹے بچے بلوغت کی وجہ سے بڑے بڑے دیکھنے لگے یا شاید بہت عرصے بعد دیکھنے کی وجہ سے میں انہیں شناخت نہیں کرپائی۔

تاہم جو نہیں بدلا وہ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی صنف ہے۔ اس میں ہمیشہ سے لڑکوں کی تعداد زیادہ رہی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ نوجوان لڑکوں کی کرکٹ کھیلنے میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔

میں گلیوں میں خوشی دیکھ سکتی ہوں، جوش و ولولہ دیکھ سکتی ہوں۔ میری نظریں اکثر غصہ، دوستی اور امید جیسے جذبات کا بھی نظارہ کرتی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو میں پہلی نظر میں کبھی نہیں دیکھ پاتی وہ میرا اپنا آپ ہے۔

میں ہر اس انسانی جذبے سے واقف تھی جوکہ ان گلیوں کی فضا میں سمویا ہوا تھا اور اس کے باوجود مجھے ان گلیوں سے وابستگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بچوں کے کھیل کی اس دنیا نے مجھے بطور انسان اس کا برابر کا حصہ دار بنایا ہے یا کم از کم بنانا چاہیے تھا لیکن میری حیثیت ہمیشہ ایک تماشائی کی طرح تھی وہ بھی خاموش۔

میں ان گلیوں میں خود کو کبھی محسوس نہیں کرپاتی تھی حتیٰ کہ جب کبھی کبھی میرا یہاں سے گزر ہوتا تو سڑک پر رکاوٹ ڈال کر کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں میں مجھے لڑکیاں کبھی نظر نہیں آئیں۔

مجھے یہ سمجھنے میں تھوڑی دیر لگی لیکن بلآخر مجھے احساس ہوگیا کہ اگر آپ لڑکے ہیں تو یہ دنیا آپ کے لیے کھیل کا میدان ہے، جس میں آپ کے لیے سب کچھ آسان ہے۔

اس احساس کے بعد برسوں تک میں اس دنیا میں ایک ’عام‘ لڑکی کی طرح تھی جس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لے گی۔ میں یہ سمجھنے کے لیے بہت چھوٹی تھی کہ یہ صرف کھیل نہیں جسے میرے معاشرے نے میرے لیے ممنوع قرار دیا ہے۔

اس کے بجائے یہ دنیا کی نظروں میں آنے کی لگژری تھی، جس سے صنفی تفرق سے بالاتر ایک انسان کے طور پر مجھے محروم رکھا گیا۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا مردوں کو سامنا نہیں کرنا پڑتا (وہ مرد جنہیں پیدائش سے ’مرد‘ کا لیبل مل جاتا ہے)۔

ہمارے معاشرے نے مردوں کو ایک فطری مقام عطا کیا ہے جبکہ دوسری جانب جب بات خواتین کی آتی ہے تو ان کا جنس اس معاملے میں مرکزی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ اگر انہیں اپنے صنف کی وجہ سے کسی خطرے کا سامنا نہ بھی ہو تب بھی یہ چھوٹا سا امکان کہ مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے، گھر کے مردوں کے لیے کافی ہوتا ہے اور وہ خواتین کو گھروں تک محدود کردیتے ہیں۔

ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی خاتون کھلاڑی بال کرواتے ہوئے
ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی خاتون کھلاڑی بال کرواتے ہوئے

اور اس طرح ہمارے پاکستان میں ایسے عوامی مقامات ہیں جہاں مرد ’عوام‘ ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے ہمارے معاشرے کی تلخ حقائق کا احساس ہوا اور میں اس کا اظہار بھی کرنے لگی۔

ہر سال رمضان کی آمد نے اس میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ میری بڑی بہن کو نیچے گلی میں سحری کے اوقات تک کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ حالانکہ ہمارا اپارٹمنٹ کمپلیکس کا ایک محفوظ مقام ہے۔ اس کے مقابلے میں میرا کزن جوکہ میری بہن سے چھوٹا ہے، اسے باآسانی اجازت مل گئی (انہیں بزرگوں سے جنہوں نے میری بہن کو منع کیا تھا)۔

جس گلی کا ذکر ہورہا ہے وہ ہمارے اپارٹمنٹ بلاک کے بالکل باہر تھی اور ہمارے گھر کی بالکونی سے وہاں کا منظر صاف نظر آتا تھا، تو اس نے اس امکان کو مسترد کردیا کہ میری بہن کو اجازت نہ دینا درحقیقت اس کی حفاظت کے لیے تھا۔

دوسری جانب میں نے کبھی اپنے والدین سے اس طرح کی اجازت طلب نہیں کی۔ دراصل میں ایک ’اچھی لڑکی‘ تھی جس نے اپنی بہن کی مثال سے سبق سیکھا اور کبھی ایسی بات نہیں کی جو میرے بزرگوں کو بری لگے جیسا کہ زیادہ تر لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے۔ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کی خوشنودی کے لیے اپنی ذات، ضروریات اور خواہشات کا گلا گھونٹ دیتی ہیں۔

تاہم زندگی کے بہت سے پہلوؤں کی طرح، بعض اوقات ’اچھی لڑکی‘ کی تربیت کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے نمایاں آزادی کی تڑپ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔ میرے معاملے میں ایسا ہی ہوا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مجھ میں اس آزادی کی طلب بڑھتی گئی جو ہمیشہ سے میری تھی۔

اسی اثنا میں، میں نے خواتین کے اسپورٹس دیکھنے کا انتخاب کیا۔ اسی لیے جب مجھے پیشکش کی گئی کہ میں ویمن کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے انسٹاگرام اسٹوریز کور کروں تو میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ یہ حقیقت کہ اس کا انعقاد رمضان میں ہورہا تھا، مجھے زیادہ پُرکشش لگا۔ یوں مجھے موقع ملا کہ اس مہینے سے منسوب میری تلخ یاد (گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت نہ ملنا) کو بھلا سکوں۔

یہ مقامی منتظمین کے زیرِ اہتمام ’کھیلو خواتین رمضان ویمن ٹیپ بال ٹورنامنٹ‘ کا ساتواں ایڈیشن تھا۔ مجموعی طور پر 12 ٹمیوں نے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کی جس کے تحت کراچی کے کچھی میمن گراؤنڈ میں 3 دنوں تک 15 میچز کھیلے گئے۔ اس ایونٹ میں 120 سے زائد کرکٹرز نے شرکت کی جس میں کامیاب ٹیم کے لیے ایک لاکھ کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔

یہ ٹورنامنٹ رات 10 سے صبح 2 بجے کے اوقات میں ہوتا تھا جس میں مختلف عمر اور تجربات والی خواتین ایک مقام پر جمع ہوئیں۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جو پہلی بار ایسے کسی ٹورنامنٹ میں شرکت کررہی تھیں بلکہ وہ بھی تھیں جو قومی سطح پر ملک کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ ان میں سے اکثریت وہ تھیں جنہوں نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ انہیں زندگی کبھی اس طرح کرکٹ کھیلنے کا موقع فراہم کرے گی۔

اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ خواتین کھلاڑیوں کے اہلخانہ پُرجوش انداز میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے وہاں موجود تھے جو ہر باؤنڈری یا وکٹ پر خوب تالیاں بجا رہے تھے۔ انہوں نے سماجی رکاوٹوں کے باوجود میدان میں اترنے والی خواتین کی خوب پزیرائی کی۔

جس رات ٹورنامنٹ کا اختتام ہوا، اپنے گھر واپس آتے ہوئے میرا گزر اپنے گھر کے پاس اسی گلی سے ہوا جہاں لڑکوں کی ٹیمیں میچ کھیلنے میں مصروف تھیں۔ تاہم اس لمحے میں میرے کانوں میں وہ آوازیں گونج رہی تھیں جو خواتین اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی میں بلند کررہی تھیں۔

اور یہ پہلا موقع تھا جب میں نے خود کو تنہا محسوس نہیں کیا۔

لڑکیوں کو یوں بے خوف و خطر سڑکوں پر کھیلتے دیکھنا یا مردوں کے یکساں کوئی کام کرتے دیکھنا خاص طور پر ایسے اوقات میں جن میں ان کا گھروں سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے، نے مجھے گہرا دلی سکون فراہم کیا۔

اس نے مجھے بتایا کہ کرکٹ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی خواتین مجھ جیسی خواتین کی نمائندہ ہیں۔ کہ یہ گلیاں اتنی ہی میری ہیں جتنی یہ دوسروں کی ہیں۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں خوشیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جس سے ہم بھی سیر ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میں بہت سے لوگ اب بھی خواتین کے کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مخالف ہیں لیکن خواتین کے ٹورنامنٹس کی طرح بہت سے دیگر اقدام سے ہمارے معاشرے میں لچک پیدا کی جاسکتی ہے اور اس کا منظرنامہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ دنیا اب بھی خواتین کے لیے کھیل کا میدان نہیں لیکن کم از کم دنیا میں کھیل کے میدانوں نے خواتین کھلاڑیوں کے لیے بھی اپنائیت کی بانہیں کھول دی ہیں۔

لاکھوں لڑکیوں کے لیے دنیا کو بہتر مقام بنانے کے لیے بس شاید یہی تبدیلی درکار ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں