لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

عمومی طور پر امریکی قانون سازی کے دو اہم دھڑوں، نیلے (ڈیموکریٹکس) اور سرخ (ریپبلکن) کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ بدنامِ زمانہ ٹک ٹاک ایپ پر پابندی کا بل امریکی ایوانِ نمائندگان سے باآسانی منظور ہونا حیران کُن تھا۔ حمایت میں 352 اور 65 مخالف ووٹوں کے ساتھ اس بل کو دوطرفہ حمایت حاصل رہی جبکہ امریکا کے اہم مسائل (جیسے سستی صحت کی سہولیات کی فراہمی، طلبہ کے قرضوں کی معافی یا یوکرین کی نہ ختم ہونے والی جنگ میں فنڈنگ وغیرہ) کو بہت کم ایسی توجہ حاصل ہوتی ہے۔

بل میں ٹک ٹاک کے مالکان بائی ٹیڈنس کو ستمبر تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹاک ٹاک فروخت کرنے کا کہا گیا ہے ورنہ اسے امریکا میں پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بل پیش کرنے والوں نے اس کا جواز بتایا کہ چینی حکومت امریکا میں ٹک ٹاک کے تقریباً 17 کروڑ صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اور الگورتھم کو اپنے حق میں ’تبدیل‘ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ یوں وہ اس مواد کو کنٹرول کرتے ہیں جو امریکی ٹک ٹاک صارفین دیکھتے ہیں۔ نینسی پلوسی اور دیگر امریکی قانون سازوں نے دعویٰ کیا کہ یہ قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے جو کسی صورت قابلِ برداشت نہیں۔

ایک طرح سے اسے چین کے خلاف امریکی اقدامات کے تسلسل کی کڑی کہا جاسکتا ہے جس میں بحیرہ جنوبی چین میں ایشین محور میں اپنی جگہ بنانا، ’چینی اثرورسوخ کو محدود رکھنے‘ کے مقصد کے تحت چین مخالف اتحاد کی تشکیل اور جیسا کہ ہم نے ہواوے کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے دیکھا، چینی ٹیکنالوجی کی ترقی کو روکنے کی کوششیں شامل ہے۔

لیکن گہری سیاسی تقسیم کے باوجود اس اقدام کے حق میں قابلِ ذکر اتفاقِ رائے اور اسے منظور کرنے کی عجلت کی وضاحت کیسے کی جاسکتی ہے، جبکہ ایوان کے بہت سے نمائندگان کی ٹک ٹاک پر فالوونگ بھی بہت زیادہ ہے؟ اگر اس معاملے پر غور کریں تو یہ اتنا امریکا کی قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں جتنا یہ اسرائیل کی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔

7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اگرچہ اسرائیل کو موقع مل گیا کہ وہ غزہ کی آبادی کا قتل عام کرکے اپنے نسل کشی کے مقصد کو پورا کرے لیکن مغربی ممالک کی آبادی کی سوچ میں تبدیلی دیکھی گئی۔ مغربی ممالک میں بڑی تعداد میں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور پُرعزم انداز میں احتجاج کیا کیونکہ وہ مغرب کی حمایت یافتہ صہیونی حکومت کی نسل پرستی میں لپٹی سفاکیت کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ ابتدائی طور پر تو مغربی اتحادیوں اور ان کے حمایت یافتہ میڈیا نے ان مظاہروں کو مسترد کیا، پھر انہیں ڈرایا دھمکایا اور بعدازاں ان مظاہروں کی شدت میں اضافے کے باعث وہ خود پریشان نظر آئے۔

’اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟‘ مغرب میں صہیونیت کے سیاسی اتحادیوں اور میڈیا اسٹیبلشمنٹ نے خود سے یہ سوال پوچھا۔ کیا اس کی وجہ ہوسکتی ہے کہ نوجوانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے فلسطینیوں کو بھوک، بمباری اور بے دردی سے قتل ہوتے دیکھنا ٹھیک نہیں لگ رہا؟ کیا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں کی لوٹ مار، انہیں تباہ کرنا، یا بے گھر اور قتل کی جانے والی فلسطینی خواتین کے زیرِجامہ کے ساتھ تصاویر مغرب کے نوجوانوں کو ناگوار گزریں؟ کیا یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ یہ لوگ اب درحقیقت اس طویل قبضے کے حقائق جاننا چاہتے ہیں؟

نہیں، ان تمام سوالات کے جواب تلاش کرنے کے بجائے امریکی اشرافیہ نے سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک کو مسئلہ قرار دیا جہاں دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازیں، ویڈیوز اور ہیش ٹیگ کی تعداد کو اسرائیل کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں پر واضح برتری حاصل ہے۔

صہیونیت کے حمایتی اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے ڈائریکٹر جوناتھن گرین بلیٹ نے اپنی لیک آڈیو کال میں ایک طرح سے اس بات کا اعتراف کیا جہاں انہوں نے متنبہ کیا کہ ان (یعنیٰ اسرائیل کے حامی گروپوں) کے لیے ’ٹک ٹاک ایک سنگین مسئلہ ہے‘۔ پھر جب اس بل کا مسودہ تیار کیا گیا تو اسے اسرائیل کے حمایت یافتہ طاقتور لابی گروپوں، شمالی امریکا کی یہودی فیڈریشنز کی حمایت حاصل ہوئی۔

اور ظاہر ہے کہ جب ہم کانگریس کے رکن مائیک گیلگر جنہوں نے یہ مسودہ لکھا، انہیں ہم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ انتخابی دور میں طاقتور امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) ان کی سب سے بڑی فنڈر تھی۔ اے آئی پی اے سی اس تاثر کے حوالے سے فکرمند ہے جوکہ اسرائیل کو حاصل ہے (جس کے وہ مستحق بھی ہیں)، اور اسی تشویش کے تحت وہ آنے والے انتخابات میں فنڈنگ کے لیے اپنی چیک بُک پھاڑ رہے ہیں اور وہ ایسے امیدواروں کی شکست کے لیے فنڈز کے صندوق کھولے بیٹھے ہیں جنہیں وہ اسرائیل کے مخالف سمجھتے ہیں۔

لیکن منفی ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ ممتاز امریکی یہودیوں کا گروپ جن میں ماہرینِ تعلیم، اداکار، لکھاری اور پروفیسرز شامل ہیں، نے اے آئی پی اے سی کی مذمت کرتے ہوئے خط پر دستخط کیے۔ یہودی ضلع سے تعلق رکھنے والی سابق امریکی کانگریس کی رکن پام کیتھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اے آئی پی اے سی کے لیے انتہائی تلخ زبان کا استعمال کیا۔ امریکا میں مین اسٹریم میڈیا بھی اب ہمت کرکے آواز اٹھا رہا ہے جیسے کہ ہم نے دیکھا کہ امریکی چینل ایم ایس این بی سی نے امریکی سیاست میں اے آئی پی اے سی کے اثرات پر پورے 6 منٹ کا سیگمنٹ کیا۔

تاہم امریکی سیاست پر اسرائیلی لابی کی گرفت فی الوقت مضبوط ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان نے حال ہی میں انروا (UNRWA) کی امداد پر پابندی لگانے اور اسرائیل کو اضافی 14 ارب ڈالرز فراہم کرنے کا بل 286 ووٹوں سے منظور کیا، البتہ 134 افراد نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اے آئی پی اے سی نے اپنی طرف سے ڈیموکریٹک پرائمریز میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کی حوصلہ افزائی کی جس سے حیرانی ہوتی ہے کہ امریکا ہی شاید وہ واحد ملک ہے کہ جہاں کوئی غیرملکی طاقت سیاستدانوں کو خریدنے پر کھلے عام فخر کرسکتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں