نقطہ نظر

قائد کی عدالت

دو ہزار چھہ کا میثاق جمہوریت وفاقی آئینی عدالت پر ایک دو جماعتی معاہدے پر مشتتمل دستاویز ہے۔

گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے چند ہفتے قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران کئے گئے تبصرے کی روشنی میں صر ف پا کستان ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ ایک نئی بحث چھڑ جانی چاھئیے۔

انہو ں نے کہا تھا: "میثاق جمہوریت میں اس با ت پر متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ عوام کی سہو لت کے پیش نظرصرف غیرآئینی معاملات نمٹائے جبکہ آ ئینی معاملا ت سلجھا نے کے لئے ایک علیحدہ وفا قی عدالت قائم کردی جائے۔ اس معاملے میں ہم ایک اورآئینی ترمیم کے لئے تیارہیں۔"

 مقدامات نمٹائے جانے کے معاملات میں قوی تعطل اورمشکلات پر وہ کافی فکر مند نظرآئے۔

"کچھ لوگ ا یسے بھی ہیں جو بیس بیس سا لوں سے جیلوں میں قید ہیں لیکن ان کے  مقدمات کو اب تک نہیں سنا گیا۔ ہمارا عدا لتی نظا م مکمل طور پر تبا ہ ہو چکا ہے، جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔"

میثاق جمہوریت، جس پرسن دو ہزارچھ میں بینظیر بھٹو اور نواز شر یف نے دستخط کئے تھے، ایک تا ریخی دستاویز ہے۔ اس کے چھتیس پیراگرافو ں میں مختلف نوعیت کے معاملات پر معاہدے موجود ہیں۔ چوتھے پیراگراف کے مطابق:

"ایک وفا قی آ ئینی عدالت قا ئم کی جا ئے جوآئینی معاملات سلجھائے۔ جس میں ہر وفاقی اکائی کی نمائیندگی موجود ہو۔ جس کے ممبران یا تو جج صاحبان ہوں یا پھر ایسے لوگ جو عدالت عظمٰی کے جج مقرر ہونے کے اہل ہوں۔ اور اس کی مدت چھہ سال پر محیط ہو۔ جبکہ سپریم اور ہا ئی کورٹس عوامی اور مجرمانہ  نوعیت  کے مقدمات حل کر نے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ ججوں کی تقرری انہیں بنیادوں پر کی جائے جن پرعدالت عالیہ میں کی جاتی ہے۔"

سن انیس سو اکتیس میں لندن میں ہو نے والی گو ل میز کانفرنس کے دوران قائداعظم محمد علی جناح نے نہ صرف اسی بات کی تجویزدی تھی بلکھ اس کی وضاحت بھی ٹھوس دلائل کے سا تھہ پیش کی تھی۔ جناح کی ہندوستان کی عدالت عظمٰی کے لئے وکالت کی روشنی میں اس تجویز کو سراہا جانا چاھیئے۔

ہندوستان کے ممتاز قانون دان سر ہری سنگھہ گورنے مرکزی اسمبلی میں ہندوستانی سپریم کورٹ قائم کرنے کی قرارداد پیش کی تھی۔ جس کی جناح نے حمایت کی تھی۔ سترہ فروری سن انیس سو پچیس میں مرکزی اسمبلی میں تقریر کے دوران انہوں نے الزام لگا یا تھا کہ: "خفیھ کونسل متعدد مواقع پر ہندووں اور مسلمانوں کے قوانین کا قتل عام کر چکی ہے۔"

وائسرائے کی ا یگزیکٹو کونسل کے قانونی ممبر سر تیج بہادر سیپرو نے اس قرارداد کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ عوامی رائے عامہ حاصل کرنے کے لئے اس قرارداد کی گردش بھی رکوادی تھی۔ اسوقت نہ صرف ہائی کورٹس اختلافات کا شکار تھیں بلکھ ہندوستا نی بار بھی۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے معروف جج سرشاہ محمد سلیمان نے البتھ اس تجویز کی حمایت کی تھی اور اسمبلی میں اس قرارداد کی ناکامی پر کوئی بھی حیران نہیں تھا۔

ستائیس اکتوبر سن انیس سواکتیس میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں جناح نے وفاقی ڈھانچے کی سب کمیٹی کے سامنے اس تجویز کی بڑھ چڑھ کرتجدید بھی  کی تھی۔

انہوں نے اعلٰی عدالتی درجہ بندی کے اندر تین عدالتوں کی تجویز پیش کی تھی: آئینی معاملات پر ایک وفاقی عدالت؛ وفاقی قوانین پر ہائی کورٹس کی اپیلیں سننے کیلئے ایک سپریم کورٹ؛ اور مجرمانہ اپیلوں کی سنوائی کیلئے ایک عدالت۔

جرمنی کے بنیادی قانون کے مطابق سن انیس سو ااننچاس میں ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی گئی اسکے ساتھ ساتھ ایک وفاقی عدالت برائے انصاف، ایک وفاقی عدالت برائے انتظامی امور، ایک وفاقی عدالت برائے تجارتی امور، ایک وفاقی عدالت برائے محنت  اور ایک وفاقی عدالت برائے عوامی معاملات بھی قائم کردی گئ تھی۔  یہ طریقہ الگ الگ شعبوں میں ماہرانہ طرز عمل اختیار کرنے کے ساتھہ ساتھہ ایک واحد سپریم کورٹ کا بوجھ کم کرنے کے لئے بھی موزوں ہے۔

جناح نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ وفاقی عدالت کا دائرہ اختیار صرف وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعہ یا صوبوں کے درمیان موجود تنازعات کو سلجھانا نہ ہو بلکہ اس کے دروازے ان شہریوں کے لئے بھی کھلے رکھے جائیں جن کے حقوق پامال کئے گئے ہوں۔

انہوں نے مزید سمجھایا: "عدالتی اہل کار بھی آیئنی معاملات پر اتنے ہی اہل ہونے چاھئیں جتنے آیئنی وکلاء۔ کیونکھ یھ سوال، جیسا کھ ہم  غور کر چکے ہیں،ایسے معاملات کا بھی جواب دے گا جنکا تعلق وفاق اور صوبوں اور صوبوں کے اپنے درمیان تنازعات سے ہو۔ اسکے علاوہ میں یھ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کے بھی حقوق پر حملہ کیا جائے یا ان کو پامال کیا جائے۔ چاہے اس کا تعلق آیئن سے ہو یا آیئن کے باہر سے پیدا ہوا ہو، تاکہ وفاقی عدالت کے پاس براہ راست جایا جا سکے۔"

 انھوں نے ایک ایسے طریقہ کار کی منصوبھ بندی بھی کی تھی جسکو بعد میں فرانس اور سری لنکا کے آئین میں بھی عدالتوں کے لئے ریفرنس کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔

"اگر کچھہ اقدامات جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوں جسکے اندر بنیادی حقوق اور کئی دوسری چیزیں بھی شامل ہیں یا کسی معاملے یا کسی برادری یا کسی ذات کے لئے آیئن کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالیں اور اس پر کم از کم دو تہا ئی اکثریت سے اعترا ض اٹھایا جاتا ہے کھ اس سے ان کے مخصوص حقوق نظر اندازہوتے ہیں تو پھر یہ آیئنی قدم منسوخ کر دیا جائے گا۔ اور ایک مہینے کے اندر اس پارٹی یا اس کا کوئی رکن اس کے خلاف اقدامات اٹھانے کے لئے اپیل دائر کر سکتا ہے۔"

اسکے نتیجے میں اگر عدالتیں اختلافات کا شکار ہو جائیں، تو پھرایسے وکلاء جو قانون کی اس مخصوص شاخ میں مہارت رکھتے  ہیں، انکو جج مقرر کر دیا جائے۔ "یہ مخصوص شعبوں میں مہارت کا دور ہے،" انہوں نے ارکان کو یاد کرایا۔

اسکے باوجود بھی وکلاء متفرق موضوعات سے متعلق مقدمے نمٹاتے رہےجن کا تعلق شادی، طلاق اور معاہدوں سے لے کر جائیداد اور سمندری حدود کے معاملات سے تھا۔

جناح نے اپنی سن انیس سو پچیس میں پیش کی گئی تجویز کی تجدید بھی کی۔ "مجھے سمجھہ نھیں آتا کے ہندوستان اپنی علیحدہ سپریم کورٹ کی خواھش کیوں نہیں کر سکتا۔ صرف ہندوستان ہی کو مستقل طورپراس خفیہ کونسل کے حوالے کیوں کر دیا گیا ہے؟

دوسری بادشاہتوں کو تو یہ مل چکی ہے اسلئے اس کی ضرورت پر اور اسکے منصفانہ ہونے پہ کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بھی سپریم کورٹ ہونا چاھیئے۔"

تجربے نے جناح کی بات کی تصدیق بڑے ٹھوس انداز میں کردی ہے۔ چند سال قبل ہندوستان کی قانونی کمیشن نے ہندوستانی سپریم کورٹ تقسیم کر کے ایک علیحدہ آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس تجویز کو شدید شک کی نظروں سے دیکھا گیا تھا کیونکہ وزیر اعظم اندراگاندھی کی پالیسی تھی کہ صرف "پرعزم " افراد کو بینچ میں جگہ ملنی چاھئیے۔

دہ ہزار چھہ کا میثاق جمہوریت وفاقی آیئنی عدالت پر ایک دو جماعتی معاہدے پر مشتتمل دستاویز ہے۔ اگر اس معاملے کو ستائیس اکتوبر انیس سو اکتیس میں پیش کی گئی جناح کی تجویز کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک موثر تجویز سامنے آجائے گی۔

اے جی نورانی کا تعلق ممبئی سے ہے اور وہ  ایک معروف مصنف اور قانون دان ہیں۔

اے جی نورانی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔