نقطہ نظر

گلیشیر کی رفتار

ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب تیزی سے ختم ہوتے دنیا کے بُلند ترین محاذِ جنگ سیاچن پر مذاکرات کا قصہ۔

سیاچن تنازعہ بہت طویل ہوچکا۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ماہر غلام رسول کی عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں کی گئی تحقیق بعنوان ' کلائمٹ ڈیٹا اینڈ موڈلنگ اینالیسز آف دی انڈس ایکو ریجن' نے خبر دار کیا ہے کہ سن اُنیّسو نواسی سے دو ہزار تین کے درمیان سیاچن گلیشیرکا رقبہ طوالت میں پانچ اعشاریہ نو کلومیٹر تک سکڑ چکا ہے۔

چند ماہ قبل لاہور میں پاکستان اور ہندوستان کے ریٹائرڈ فوجی افسران اور سفارت کاروں پر مشتمل گروپ نے 'سیاچن پروپوزل' دیا تھا۔ یہ یونیورسٹی آف اوٹاوا اور ساؤتھ ایشیا سینٹر فار اٹلانٹک کونسل کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس کا بنیاد اتفاقِ رائے پر مبنی اعتماد سازی کا قیام تھا۔

اس پروپوزل کے ذریعے تصور پیش کیا گیا کہ موجودہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے دونوں ممالک گلیشیر سے فوجیں ہٹا کر، فوجی دستوں کو ایک ایسے مقام پر تعینات کریں، جس پر دونوں کا اتفاق ہو۔ اس ضمن میں پہلے کیے گئے دو معاہدے ناکام ہوچکے ہیں۔

ہندوستان نے تیرہ اپریل، اُنیّسو چوراسی کو سیاچن گلیشیر پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد یہ تنازع شروع ہوا۔ جیسا کہ نہایت مختصراً اوپر ذکر کیا جاچکا، اس پروپوزل کی اہمیت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن تنازع شروع ہونے کے بعد سے اب تک کے سفارتی پس منظر میں۔

سترہ جون، سن اُنیّسو نواسی کو دونوں ممالک اسلام آباد میں اس تنازع پر ایک معاہدے پر متفق ہوئے، طے پایا گیا تھا:

'فوجی دستوں کی ازسرِ نو تعیناتی کی بنیاد پرمعاملے کے جامع تصفیے کے طرف پیش رفت کی جائے گی۔۔۔ اور شملہ معاہدے کی روشنی میں دستوں کی تعیناتی طے ہوگی۔۔۔ دونوں طرف کی فوجی انتظامیہ تعیناتی کے مقامات طے کریں گی۔'

اس وقت ہندوستانی فوجی سربراہ نے زور دیا تھا کہ فوجوں کی موجودہ پوزیشنوں کو ظاہر کیا جائے۔ پاکستان کو خطرہ تھا کہ ایسا کیا تو یہ اسٹیٹس کُو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی گزشتہ سال اپریل میں، یہ کہنے میں بالکل حق بجانب تھے:

'آپ جانتے ہیں وہ معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تنازع طے ہو اور اسے طے ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے اور اُن کے لیے ایک مشکل مشن ہے اور یہ اس کی لاگت ہے۔'

نومبر دو تا چار، سن اُنیّسو بانوے میں ہر فریق اس تنازع پر ایک تجویز کے ساتھ شریک ہوا تھا لیکن ان پر شروعات نہ ہوسکی۔

جیسا کہ میں پہلے بھی ایک اور تحریر میں لکھ چکا ہوں:

'پاکستان فوجیں پیچھے ہٹانے کے لیے ایک مثلث تجویز پیش کرچکا۔ جس میں نشاندہی کی گئی کہ شمال مغرب میں اندرا کول؛ جنوب میں، جہاں لائن آف کنٹرول ختم ہوتی ہے، وہاں پر پوائنٹ این جے نائن ایٹ فور ٹو؛ اور شمال مشرق میں قراقرم پاس پر۔ فوجوں کی واپسی کے بعد ایک مشترکہ کمیشن این جے نائن ایٹ فور ٹو کے آگے لائن آف کنٹرول کی نشاندہی کرے گا۔ ہندوستان پوائنٹ این جے نائن ایٹ فور ٹو سے آگے لائن آف کنٹرول کی حد بندی طے کرنے پر رضامند ہوگیا تھا۔'

تاہم، ہندوستان چاہتا تھا کہ تنازع کے فریق دونوں ممالک فوجوں کی موجودہ پوزیشنوں کی تعریف طے کریں اور اُن مقامات کا بھی تعین کریں جہاں فوجیں تعینات کی جائیں گی۔ نیز خالی کیے گئے علاقے کو، موجودہ فوجی پوزیشن کے اندر رکھتے ہوئے، نشاندہی کر کے اسے آزاد زون یا 'اے زون آف ڈس انگیجمنٹ' قرار دیا جائے۔

لیکن پاکستان نے اس پیشکش میں ترمیم کی: 'دونوں اطراف کی افواج علاقہ خالی کردیں اور جس طرح ضمیمہ میں نشاندہی کی گئی، وہاں پر فوجیں تعینات کرلیں۔ نشان دہی کیے گئے علاقوں کو خالی کرنے پر، دونوں میں سے کوئی ایک فریق بھی، اخلاقی، قانونی یا سیاسی وجوہ کی بنیاد پر کوئی دعویٰ نہیں کرسکے گا۔'

پاکستان نے ہندوستانی تحفظات کے پیشِ نظر مذکورہ پروپوزل میں ترامیم کی تھیں۔ یہ معاملہ ہندوستانی سیکریٹری دفاع این وی وہرہ اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے درمیان ہی لٹک کر رہ گیا تھا۔

اس کے بعد تکنیکی مذاکرات ہوئے، جس میں ان پر اتفاق طے پایا: نمبر ایک، ہندوستان زن گلما اور پاکستان گوما کے مقامات سے انخلا کرے گا۔ دوئم، اس کے بعد علاقوں کی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نگرانی کی جائے گی۔'

جنوری اُنیّسو چورانوے کو ہندوستان نے سن اُنیّسو بانوے کے پروپوزل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا:

'علاقہ خالی کر کے فوجوں کی از سرِ نو تعیناتی، مانٹیرنگ اور امن قائم کرنے کے لیے طے شدہ شیڈول پر دونوں ممالک وسیع تر مفاہمت پر پہنچ چکے۔۔۔ دونوں فریقین میں سیاچن محاذ پر کشیدگی میں کمی پر اتفاقِ رائے ہوچکا۔ دونوں فریقین کی فوجیں اس وقت جہاں پر قابض ہیں، وہ اسے خالی کر کے پیچھے پلٹیں گی اور ان جگہوں پر تعینات ہوں گی، جس کی ذیل میں نشاندہی کی جاچکی ہے۔۔۔'

ایک بنیادی نکتہ جس پر سن اُنیّسو چھیاسی سے دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، وہ ہے باہمی انخلا۔ جسے تباہ کرنے کے لیے وزیرِ دفاع جان فرنانڈس پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

اٹھارہ جولائی، اُنیّسو اٹھانوے کو ایک بیان میں انہوں نے کہا 'حکمتِ عملی اور علاقے میں سلامتی کے وسیع نقطہ نظر کے باعث ہندوستان سیاچن پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔' اس سے پہلے ان کی جانب سے ایسی کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔

اس کے بعد چھ نومبر، اُنیّسو اٹھانوے سے نئی دہلی میں مذاکرات شروع ہوئے مگر وہ ناکام رہے۔

سن دو ہزار چار میں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے من موہن سنگھ پاک ۔ ہندوستان تعلقات میں نہایت بہتری کی خواہش لیے سامنے آئے۔ انہوں نے بارہ جون، دو ہزار پانچ کوسیاچن محاذِ جنگ کا دورہ کیا اور بیس کیمپ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس برفیلے محاذِ جنگ کو 'کوہسارِ امن' میں تبدیل کردیا جائے۔

تاہم فوجی سربراہ تبدیل ہوئے اور نئے ہندوستانی فوجی سربراہ نے جارج فرنانڈس کی لائن پکڑی اور سیاچن سے افواج کے انخلا کا امکان مسترد کردیا۔

دس جون، دو ہزار بارہ کو ہندوستانی اخبار 'دی ہندو' نے سن اُنیّسو بانوے کے مذاکرات میں پیش کیے گئے پروپوزل کا نہ صرف پورا متن شائع کردیا بلکہ اُس وقت ہندوستان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سیکریٹری دفاع این وی وہرا کا انکشافات سے پُر انٹرویو بھی شائع کیا۔

وہرا ہندوستان کے نہایت سرگرم سول سرونٹ سمجھے جاتے تھے۔ اس وقت وہ ہندوستانی زیرِ انتظام جمّوں اور کشمیر کے گورنر ہیں۔

وہ انکشاف کرتے ہیں کہ 'ہم نے حیدرآباد ہاؤس میں بیٹھ کر رات دس بجے تک معاہدے کا حتمی متن تیار کرلیا تھا، جس پر دوسرے دن صبح دس بجے دستخط ہونے والے تھے لیکن آدھی رات کو مجھے ہدایت دی گئی کہ دوسرے دن معاہدے پر ہرگز دستخط نہ کیے جائیں بلکہ معاملے کو ادھورا چھوڑ دیا جائے، جس پر جنوری، اُنیسّو ترانوے کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں بات کی جائے گی۔ تو اس طرح معاملات آگے بڑھ رہے تھے۔'

وہرا کہتے ہیں کہ 'اور پھر وہ دن کبھی نہیں آیا۔' پی وی نرسمہا راؤ نے بھارتی جنتا پارٹی کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔

سیاچن ؛پروپوزل دو ہزار بارہ نے تجویز پیش کی ہے 'اگرچہ دونوں فریقین کے پاس فوجیں رکھنے کا آپشن برقرار رہے گا تاہم دونوں فریقین کو متنازع علاقے (سیاچن) سے فوجی انخلا پر متفق ہونا چاہیے۔ علاقے کو مکمل طور پر فوج سے پاک کرنا ہوگا، جس کے لیے ضمیمہ میں بعنوان 'مانٹیرنگ اینڈ ویری فکیشن آف ڈی ملٹرائزیشن' میں تفصیلات بیان کردی گئی ہیں۔'

یہ اب تک نظر انداز کیے گئے معاملے کے پہلوؤں کے حوالے سے نہایت اہم ہے، جس نے اپنی طرف توجہ بھی مبذول کرالی ہے۔

'سیاچن پر کچھ تیزی سے رونما ہونے والا نہیں: نقل و حمل یا لاجسٹک اور موسم ایک بہت بڑی مشکل ہے۔ ایسے دور افتادہ مشکل علاقے میں فوجوں کی ازسرِ نو تعیناتی آسان کام نہیں اور یہ سب کچھ تیزی سے ہونے کا امکان بھی نہیں۔'

ہندوستان مشترکہ اقدامات کے زریعے اپنی موجودہ پوزیشنوں کو محفوظ بناسکتا ہے اور پاکستان باہمی مفاہمت سے، سیاچن سے فوجی انخلا کرسکتا ہے۔


مضمون نگار قانون داں اور مصنف ہیں۔ ترجمہ: مختار آزاد

اے جی نورانی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔