بلوچستان میں زلزلے سے 238 ہلاکتیں
رپورٹ علی شاہ:
کوئٹہ: پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے علاقے آواران اور کئی دوسرے اضلاع میں منگل کو آنے والے شدید زلزلے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 238 ہو گئی ہے جبکہ 400 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بولیدی نے زلزلے کے نتیجے میں 238 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
جان محمد بولیدی نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ تباہ کن زلزلے کے باعث 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں اور ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب میں بھی 30 افراد ہلاک ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ترکی اور ایران نے بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی امداد کی پیشکش کی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ ضلع کیچ اور آواران میں زلزلے سے متاثرہ ہزاروں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ امدادی کارکنوں کو بھی مواصلاتی نظام متاثر ہونے کے باعث کارروائیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
گزشتہ روز منگل کو آنے والے زلزلے کی شدت 7.7 ریکارڈ کی گئی جس سے سب سے متاثر صوبہ بلوچستان کا ضلع آواران ہوا ہے۔
رپورٹ ڈان اخبار:
زلزلے سے بڑے پیمانے پر مکانات اور عمارتیں منہدم ہوئی ہیں جو ان ہلاکتوں کا سبب ہیں۔
ڈان اخبار کے نمائندے سلمان شاہد نے اپنی رپورٹ میں حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ مواصلاتی رابطہ معطل ہونے سے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارکنوں کو پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے آواران سمیت صوبے کے پانچ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
امدادی کارووائیوں میں فوج اور ایف سی کے اہلکار بھی حصّہ لے رہے ہیں۔
تباہ ہونے والوں مکانات کے ملبے سے متعدد زخمی افراد کو نکالا جا چکا ہے اور فوج اور ایف سی کے ڈاکٹروں کے علاوہ پیرا میڈیکل اسٹاف بھی ان کے علاج معالجے میں مصروف ہے۔
ضلح آواران کے چیف سیکریٹری بابر یعقوب فتح محمد نے ڈان کو بتایا کہ 80 فیصد سے زائد کچے مکانات منہدم ہوچکے ہیں جس سے اس علاقے میں جانی نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دور دراز علاقوں سے متعدد ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں لیکن رات گئے تک ان جگہوں پر امدادی کارکنوں کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی۔
زلزلے سے ضلع آواران کے دیہاتی علاقوں میں ہزاروں مکانات تباہ ہونے سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق ضلع کچی میں زلزلے سے کم سے کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک خاتون اور ایک لڑکی بھی شامل ہے۔
اسی طرح تربت کے قریب تحصیل ہوشاب کے گاؤں داندار میں بیس مکانات گر گئے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق آواران میں بلوچستان نیشنل پارٹی-ایم کے ایک رہنما منیر احمد میروانی بھی زلزلے سے ہلاک ہوئے ہیں۔
ایف سی ذرائع کے مطابق آواران میں لیویز کا ایک کیمپ بھی تباہ ہوا ہے۔
ایک مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ افراد کو سر چھپانے کے لیے کوئی مناسب جگہ فراہم نہیں کی گئی۔
کراچی: پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں زلزلے کے جھٹکوں کے نتیجے میں کم از کم 55 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ مغربی صوبے میں زلزلے کے باعث کئی مکانات بھی منہدم ہو گئے ہیں۔
ترجمان بلوچستان حکومت جان بلیدی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ حکومت نے آواران کی جانب 15 ایمبولنسز، 500 کھانے پینے کی اشیاء کے بیگ اور ایک ہزار ٹینٹ روانہ کردیئے ہیں۔
بلیدی نے 55 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کیچھ کے علاقے سے نو لاشیں برآمد کی گئی ہیں جبکہ ہلاک شدگان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
جان محمد بلیدی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ زلزلے سے چھ اضلاع متاثر ہوئے جبکہ سب بری طرح متاثر ہونے والا علاقہ آوران کا تھا جہاں سینکڑوں گھر مسمار ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیگر متاثرہ اضلاع میں پنجگور، چاغی، خصدار، گوادر اور کیچھ ہیں۔
بلیدی کہا کہنا تھا کہ تمام متاثرہ اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کرنی گئی ہے جبکہ متاثرین کی امداد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زلزلے کے باعث کمیونیکیشن کا نظام درہم برہم ہوگیا جسکے باعث ان علاقوں سے رابطہ مشکل ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زخمیوں کو لسبیلہ اور کراچی میں طبی امداد دی جارہی ہیں۔
دوسری جانب اطلاعات کے مطابق آوران جارہی ڈاکٹروں کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی ہے تاہم اس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل آواران کے ڈپٹی کمشنر عبدالرشید بلوچ نے بتایا تھا کہ آواران بازار سے چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ چار افراد کی لاشیں دور دراز کے گاؤں سے ملی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لیویز کے اہلکار زلزلے سے زمین بوس ہونے والے ایک مکان سے 10 لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ ملبہ تلے مزید افراد دبے ہوئے ہیں۔
ادھر آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے 200 فوجی اور میڈیکل ٹیمیں آواران کے قصبے لباش پہنچ گئی ہیں۔
منگل کی شام ساڑھے چار بجے کے قریب کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ اور سندھ و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس سے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کی شدت 7.7 تھی اور اس کا مرکز بلوچستان کا علاقہ خاران تھا۔
محکمہ موسمیات کے آفیشل محمد حنیف کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 7-8 کے درمیان تھی اور آنے والے دو دنوں تک آفتر شاک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز دالبندین کے جنوب مشرق میں 145 میل دور پاکستان کا مغربی علاقہ تھا جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی۔
ڈپٹی کمشنر آواران نے بتایا کہ علاقے میں ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور لوگوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے تمام اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آواران میں زلزلے کے باعث مٹی سے بنے سینکڑوں گھر تباہ ہو گئے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے 30 اضلاع کے تمام ڈپنی کمشنرز کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان بولیدی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ زلزلے کے بعد آواران کے ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا ہے اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق سندھ کے علاقوں جیکب آباد، نوابشاہ، خیرپور اور نوشہرو فیروز اور گردونواح سمیت بلوچستان میں کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔
کراچی میں زلزلے کے جھٹکوں کے بعد شہری اپنے گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے جبکہ آئی آئی چندریگر روڈ پر لوگوں کے دفاتر سے باہر نکلنے کے باعث ٹریفک جام ہو گیا۔