کرم کو جاتے تمام راستے بند، مقامی لوگ کن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں؟
کرم میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے ماضی کے پردے پر دیکھا جائے تو ان حالات و واقعات کا قریب سے تجزیہ کرنے کی مضبوط خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے۔ کرم 40 سال قبل کیے گئے حکومتی فیصلوں کی وجہ سے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ فیصلے ایسے وقت میں کیے گئے تھے کہ جب دنیا کا منظرنامہ تبدیل ہورہا تھا بالخصوص افغان جنگ ہورہی تھی جو سرد جنگ کا اختتام ثابت ہوئی تھی۔
اب یہ آگ وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے اور دہائیوں پہلے شروع ہونے والی دہشتگردی ____ جنگ سنگین رخ اختیار کرچکی ہے (قارئین پاکستان میں جنگ کے اپنے تجربے کے مطابق اپنی مرضی سے اس خالی جگہ کو ’کے خلاف‘ یا ’کی‘ سے پُر کر سکتے ہیں)۔
کسی ملک کی اندرونی سیاست اور ممالک کے درمیان سیاست اکثر ایک جیسی حکمت عملی کی وجہ سے ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں حالانکہ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ دو مختلف عوامل ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ کرم کی حالیہ کشیدہ صورت حال زمین کا مسئلہ یا فرقہ وارانہ خونریزی نہیں بلکہ قومی اور بیرونی عناصر اپنے مفادات کی غرض سے دانستہ طور پر اس خطے میں آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔ وہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو شاید حالیہ جنگوں کو مزید تیز کرنے کے لیے بھڑکا رہے ہیں یا پھر وہ مستقبل کی جنگوں کے لیے تیاری کررہے ہیں۔
اگر آپ گزشتہ 20 سالوں سے کرم کی صورت حال اور اس کی سیاست کو قریب سے دیکھ رہے ہیں یا اس کی رپورٹنگ کر رہے ہیں تو یہ خیال زیادہ درست لگتا ہے کہ یہ تنازعات بنیادی طور پر بیرونی قوتوں کی ایما پر ہورہے ہیں۔
دردکش ادویات کی قلت
کرم کی صورت حال افراتفری کا شکار ہے۔ گرینڈ جرگہ امن کی کوششوں میں مصروف عمل ہے جبکہ کرم کی بند سڑکیں کھولنے کے لیے بار بار درخواستیں کی جارہی ہیں۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کرم کو جانے والے تمام راستے بند ہیں تاکہ ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ بند ہو۔ کرم کے رہائشی بھی ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے بےچینی میں مبتلا ہیں۔
مینا نامی خاتون پاراچنار میں رہتی ہیں۔ وہ ایک استانی اور تین بیٹیوں کی ماں ہیں۔
کرم کو جانے والے راستے گزشتہ 50 روز سے بند ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کو اسکول جانے کے لیے شدید سردی میں طویل مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔ گاڑیاں یا دیگر سواریاں نہ ہونے کی صورت میں طلبہ کی بڑی تعداد اپنے اسکول جانے سے قاصر ہے۔
مینا کی ایک بیٹی زرشتہ یخ بستہ موسم کے باوجود امتحان دینے کے لیے اسکول پیدل گئی جہاں سے واپس گھر آکر اسے بخار ہوگیا۔ بخار کا علاج کرنے والی ادویات جیسے پیناڈول اور بروفین بھی اب کرم میں دستیاب نہیں۔
میری مینا سے فون پر گفتگو ہوئی اور دیگر قبائلی خواتین کی طرح وہ بھی ایک اجنبی مرد سے بات کرنے میں ہچکچا رہی تھیں، ’گزشتہ رات میں نے واٹس ایپ پر دیکھا کہ نمونیا کے باعث بچوں کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔
’گیس اور لکڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کوئلے کا استعمال کررہے ہیں جسے موسمِ سرما میں محفوظ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب یہ دستیاب ہوتے ہیں، تو اس کا معیار انتہائی خراب ہوتا ہے جس کی وجہ سے سینے کے انفیکشنز میں اضافہ ہورہا ہے۔
’آٹے اور ایندھن کی قلت کی وجہ سے میرے اسکول میں بچے ناشتہ یا دوپہر کا کھانا کھائے بغیر آتے ہی۔ میری جماعت میں ایسے بھی طلبہ ہیں جو صرف چائے پر گزارا کرتے ہیں اور کمبل میں رہ کر خود کو گرمائش دیتے ہیں۔ آج ہمارے محلے کے نان بائی نے کہا کہ وہ تندور بند کررہا ہے کیونکہ اس کے پاس آٹا ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے پاس جو راشن بچا ہے ہم اسے محتاط انداز میں استعمال کررہے ہیں۔ ہم اپنے ضرورت مند پڑوسیوں کی بھی راشن دیتے ہیں لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ کافی نہیں اور لوگ ضروریات زندگی سے محروم ہیں‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ بچوں کے لیے فارمولا غذا بھی دستیاب نہیں۔ خون جمع دینے والی سردی میں بچے بھوکے پیٹ ہیں جس کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔
بنجر زمین کے پھول
بنجر زمین کو پشتو زبان میں للمہ کہا جاتا ہے۔ شعرا نے اپنی شاعری میں صحرا میں کھلنے والے للمہ پھول کے متعلق بھی لکھا ہے۔ للمہ کے چھوٹے پھول کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں کیونکہ بنجر زمین پر اگنے والے پھولوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
کرم میں للمہ نامی ایک گاؤں ہے۔ دیگر دیہات کے برعکس یہ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں بہت کم بارشیں ہوتی ہیں جبکہ یہ پاک افغان سرحد کے قریب ہے۔
پاراچنار کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والی ڈاکٹر نے بچوں کی اموات، غذائیت کی کمی، کھانسی اور بخار کے پھیلاؤ سے متعلق بتایا۔ ان بچوں میں دیوا نام کی بچی بھی ہے جس کا تعلق للمہ سے ہے۔
دیوا کی عمر ایک سال 8 ماہ ہے۔ یہ چھوٹی بچی شدید درد سے رو رہی ہے۔ میں نے اس کے رونے کی آواز فون پر ڈاکٹر سے گفتگو کرتے ہوئے بھی سنی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ بچی کو وائرل فلو ہے جو سردی کی وجہ سے نمونیا میں تبدیل ہوچکا ہے۔
درد کش ادوایات کی کمی کی وجہ سے لوگ اپنے گھر میں موجود ایسپیرین کا استعمال کررہے ہیں۔ بچوں کو ایسپرین دینے سے ان کا جگر فیل ہوسکتا ہے۔ اس سے بھی خراب صورت حال یہ ہے کہ کرم میں طبی سپلائیز کی کمی کے باعث لیبارٹریز بند ہیں جس کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کی درست تشخیص نہیں ہو پا رہی ہے۔ سردی اور بخار کے باعث سینہ جکڑ جاتا ہے جس کے علاج کرنے کے لیے درکار اینٹی بائیوٹکس دستیاب نہیں ہیں اور جہاں یہ دستیاب ہیں وہاں یہ تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔
’اگر معاملہ سنگین ہو تو بچوں کو انجیکشن کے ذریعے اینٹی بائیوٹکس دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومت ہیلی کاپٹر کے ذریعے جو ادوایات بھیجتی ہے وہ ملیریا اور دیگر فنگل انفیکشنز کے لیے ہوتی ہیں جبکہ ہمیں سینے کے انفیکشنز کے لیے سیپروفلوکسین، آئرن اور وٹامن کے سپلیمنٹس، گریونیٹ (متلی اور چکر کی روک تھام کے لیے) وغیرہ کی ضرورت ہے۔
’ہم ان بچوں کو ہسپتال میں داخل کرلیتے ہیں جنہیں ایمرجنسی میں فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہسپتال کے وارڈز کو گرم کرنے کے لیے گیس نہیں ہے۔ اس لیے ان مریضوں کو منفی 6 یا منفی 4 کے درجہ حرارت میں گھر بھیج دیا جاتا ہے‘۔
ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ کرم میں نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے، لوگ روزگار سے محروم ہیں بالخصوص وہ لوگ جو مزدور ہیں اور روزانہ کی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ وہ اب ہسپتال اور ادویات کے اخراجات نہیں اٹھا پاتے۔ اور یہ پاراچنار اور صدا جیسے شہروں کی صورت حال ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’للمہ جیسے دیہاتوں کے مریض یہاں بہت کم ہی آتے ہیں اس لیے ہم یہ نہیں جانتے کہ ان دیہاتوں میں صحت عامہ کی صورت حال کتنی سنگین ہے‘۔
مینا اور ڈاکٹر دونوں نے یہ مؤقف بتایا کہ کرم میں بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں کیونکہ مارکیٹ میں فامولا دودھ دستاب نہیں ہے۔ لیکٹوجن جیسے دودھ کے برینڈ اب مقامی سطح پر میسر ہی نہیں۔
’صبح رات ٹماٹر کھا رہے ہیں‘
کرم سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا کہ ’پانی نہیں ہے کیونکہ پانی کا ٹینکر گھر لانے کے لیے پیٹرول یا ڈیزل نہیں ہے۔ سبزیاں، پھل، ادویات یا دیگر خوراک بھی دستیاب نہیں۔ انڈے نہیں ہیں، گوشت نہیں ہے، بسکٹس وغیرہ بھی موجود نہیں ہیں۔ نہ نمک ہے اور نہ امید ہے۔ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں بےیارو مددگار چھوڑ دیا ہے‘۔
وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کے پاس ٹماٹر ہیں۔ کرم میں ٹماٹر کی پیداوار کا سیزن حال ہی میں ختم ہوا ہے جس کے بعد کچھ ٹماٹر اب بھی کھانے کے لیے موجود ہیں۔ چونکہ راستے بند ہیں اور یہ ٹماٹر کی کھیپ دیگر اضلاع میں نہیں بھیجی جاسکتی اس لیے کرم کے لوگ دن رات ٹماٹر کھا رہے ہیں۔ پاراچنار کے قریب واقع ایک گاؤں کے کاشتکار نے کہا کہ ’یہ بالکل اس وقت کی طرح ہے کہ جب ہم 4 سال کے لیے اپنے علاقے میں محصور ہوگئے تھے اور وہی کھا رہے تھے جو ہمیں اس زمین پر میسر تھا‘۔
لیکن وہ مختلف وقت تھا۔ اس وقت افغانستان کی طرف سے سرحد کھلی ہوئی تھی۔ جو لوگ تھل-پاراچنار روڈ پر سفر نہیں کر پاتے تھے وہ براستہ افغانستان سفر کرتے تھے۔ حالیہ دنوں کے برعکس اس وقت سرحد پار سے کھیپ آتی تھی۔
اب سرحد بند ہے جبکہ کرم میں بینکس اور بیکریاں بھی بند ہیں۔ ضروریات زندگی کی اشیا ختم ہوچکی ہیں جبکہ راشن کی دکانیں بھی بند ہورہی ہیں۔
لوئر کرم کے صدا سے تعلق رکھنے والے قبائلی بزرگ کہتے ہیں کہ ’کرم جانے والے راستے کھلے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اس خوف سے نہیں جاتا کیونکہ وہ مخالفین کے علاقوں سے گزرتے ہیں‘۔
تورا واری کی کھردری پہاڑی سڑک جو تھل کے قریب ڈبہ سے جڑتی ہے، صدا اور وسطی کرم کسی نہ کسی طریقے سے پہنچ جاتے ہیں۔ تھل پاراچنار کی مرکزی سڑک کو بائی پاس کرتے ہوئے سامان پہنچتا ہے۔
تاہم پاراچنار سرحد، مرکزی سڑک اور پہاڑی راستوں سے منقطع ہے۔ 21 نومبر کے واقعے اور اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں 130 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بھگن جیسے مقامات سے گزرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کے قافلوں پر بھی بھروسہ نہیں رہا کہ وہ انہیں محفوظ انداز میں لے جائیں گے۔ ایسے علاقوں میں کشیدگی عروج پر ہے جبکہ لوگوں کا صبر بھی جواب دے رہا ہے۔
کوہاٹ میں منعقدہ گرینڈ جرگہ فیصلہ نہیں کرپایا کہ سڑکوں کو کیسے کھولا جائے گا۔ لوگ حکام سے سوال کرتے ہیں کہ اگر وہ سڑکیں نہیں کھول سکتے تو کون کھولے گا؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔