جسٹس منصور کا 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کرنے کا مشورہ
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کا کل ہونے والا اجلاس مؤخر کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا، جس میں مشورہ دیا گیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کردیا جائے۔
ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی جبکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف 2 درجن سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں منظور ہوسکتی ہیں اور مسترد بھی، درخواستیں منظور ہوئیں توجوڈیشل کمیشن کےفیصلوں کی وقعت ختم ہو جائے گی، ایسی صورتحال ادارے اور ممبران کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔
خط میں مشورہ دیا گیا ہے کہ 26 ترمیم کے خلاف درخواستوں کے فیصلے تک اجلاس مؤخر کردیا جائے اور چیف جسٹس 26 آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مشورہ دیا ہے کہ چیف جسٹس رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواستیں سماعت کے لیے لگانے کا حکم دیں۔
یاد رہے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے 2 نومبر کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کے نام سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیے تھے۔
جوڈیشل کمیشن کے لیے قومی اسمبلی سے اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب، مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی شیخ آفتاب کو نامزد کیا گیا جب کہ خاتون نشست پر روشن خورشید بروچہ کو نامزد کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں، سینیٹ سے جوڈیشل کمیشن کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فاروق نائیک اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اور اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نامزد کیے گئے تھے۔
تاہم گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے درجنوں مقدمات میں نامزدگیوں اور عدالت میں پیشیوں کو جواز بناتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔