پاکستان

نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، وزیر خزانہ

آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے معاہدے کی ترجیحی اصلاحات میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا اور ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس کے نظام میں لانا شامل ہے، محمد اورنگزیب

وفاقی وزیر خرانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے کے علاوہ اب ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں رہی۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم 9 ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام میں تھے جس کی بنیادی وجہ ملک میں معاشی استحکام لانا تھا، دوست ممالک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے 7ارب ڈالر کے معاہدے کے حصول میں کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 سے لے کر اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کے اہداف دیکھ لیں، ہم نے ان تمام معاہدوں میں بنیادی اصلاحات کو پورا کرنے کی حامی بھری لیکن انہیں مکمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں اور پھر ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔

محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے میں ترجیحاًً اصلاحات میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا شامل ہے اور ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس کے نظام میں لانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کرپشن کو ختم کرنا ہے اور اگر ہم اس کو ختم نہیں کرتے تو ہمارے پاس پھر گنجائش نہیں رہتی۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا ہمارا سب سے بڑا معاشی شراکت دار ہے اور جب ہم ایگزیکٹو بورڈ میں ان کی طرف سے حاصل ہونے والی حمایت کو سراہتے ہیں۔

امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے آئی ایم ایف پروگرام اثرانداز ہونے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ معاشی سفارت کاری میں یہ ساری چیزیں ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہیں اور ہماری برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ امریکا ہے، اس لیے اس وقت تجارتی شراکت داری اہمیت کی حامل ہے۔

انن کا کہنا تھا کہ امریکا سے پہلے بھی سرمایہ کاری آتی رہی ہے اور مستقبل میں بھی آتی رہے گی۔

محمد اورنگزیب نے امریکا کی طرف سے پاکستان پر چین کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو استعمال کرنے کے حوالے سے سوال پر کہا کہ پاکستان کا بیرونی قرضہ کثیرالجہتی قرضہ ہے جبکہ اس کے دو طرفہ قرضے میں تین ممالک شامل ہیں جس میں چین سب سے زیادہ قرض فراہم کرتا ہے اس لیے آئی ایم ایف اس حوالے سے سوال کرتا ہے کہ یہ قرض کس طرح ختم یا روول اوور ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کا شاید ہی ایسا ملک ہو جہاں نان فائلر کی اختراع ہو لیکن اب ہم اسے ختم کرنے جارہے ہیں اور اب ہمارے پاس اس کی گنجائش نہیں رہی کہ ملک میں کوئی نان فائلر رہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر آپ ڈاکومینٹڈ معیشت کی طرف جانا چاہتے ہیں تو یہ اقدامات اٹھانے ہوں گے اور ان اقدامات سے وقتی طور پر مسائل آئیں گے، اگر ہم یہ نہیں کرتے تو پھر ملک اسی طرح چلے گا جیسے 75 سال سے چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سب کا ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کیا کیا اثاثے ہیں اور کون کتنا ٹیکس دیتا ہے۔