پاکستان

جبری گمشدگیوں سے متعلق بل کبھی ’غائب‘ نہیں ہوا، قومی اسمبلی واپس بھیجا جاچکا، سینیٹ سیکریٹریٹ

میڈیا میں ایک غلط تاثر پیدا ہوا کہ بل لاپتا ہوگیا ہے اور اس کے پیچھے چیئرمین سینیٹ یا سینیٹ سیکریٹریٹ کا ہاتھ ہے، بیان

سینیٹ سیکریٹریٹ نے پیر کو کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بل کبھی غائب نہیں ہوا بلکہ ایوان بالا سے منظور ہونے کے بعد اسے واپس قومی اسمبلی بھیجا جا چکا ہے۔

8 نومبر 2021 کو قومی اسمبلی نے فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2021 منظور کیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان پینل کوڈ ( پی پی سی) اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم کرنا تھا، 2022 میں سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے الزام عائد کیا کہ متعلقہ قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد ایوان بالا میں بھیجا گیا بل ’غائب‘ ہوگیا ہے۔

بعد ازاں شیریں مزاری نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بل کے معاملے پر ان کو انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) ہیڈ کوارٹرز پیش ہونے کو کہا گیا ہے، انہوں نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں بل پیش کیے جانے کے بعد اسے داخلہ کمیٹی بھیج دیا گیا تھا جہاں ’خفیہ لوگوں‘ نے شقوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل سینیٹ کے راستے میں ’غائب‘ ہو گیا ہے۔

2 جنوری کو جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں ’گمشدہ‘ بل کا مسئلہ پھر کھڑا ہوا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور اقتدرا میں سینیٹ بل کے گمشدہ ہونے کے حوالے سے حیرانی کا مظاہرہ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عجیب بات ہے کہ ایک وزیر کہہ رہی ہیں کہ ان کا بل غائب ہو گیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پر سنگین الزام لگایا گیا۔

آج جاری کردہ ایک بیان میں سینیٹ سیکریٹریٹ کا سپریم کورٹ کی 2 جنوری کو ہونے والی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سماعت میں اس بل کا حوالہ دیا گیا جو قومی اسمبلی میں پیش ہوا لیکن شاید جب اسے سینیٹ منتقل کیا گیا تو وہ غائب ہو گیا۔

مزید براں، اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ وفاقی وزیر کی جانب سے مذکورہ بل کو منظور کروانے کی کوششوں کو چیئرمین سینیٹ نے ناکام بنا دیا، تاہم سپریم کورٹ کا یہ کہنا درست تھا کہ چیئرمین سینیٹ پر لگائے گئے مذکورہ الزامات پر توجہ دینا مناسب نہیں ہوگا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پھر بھی میڈیا میں ایک غلط تاثر پیدا ہوا کہ بل لاپتا ہوگیا ہے اور اس کے پیچھے چیئرمین سینیٹ یا سینیٹ سیکریٹریٹ کا ہاتھ ہے۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کا کہنا تھا کہ بل کے غائب ہونے یا چیئر مین سینیٹ کی مبینہ مداخلت کا مضحکہ خیز الزام حقائق پر مبنی تفصیلات سے متصادم ہے، اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا کہ مذکورہ بل کو اس وقت کے وزیر داخلہ نے 7 جنوری 2021 میں قومی اسمبلی میں متعارف کروایا تھا۔

سیکریٹریٹ نے کہا کہ قومی اسمبلی نے 8 نومبر 2021 کو بل پاس کیا، آئین اور قواعد و ضوابط کے مطابق 10 نومبر 2021 کو اسے سینیٹ بھیج دیا گیا۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کے مطابق ایوان بالا میں بل جولائی 2022 کو پیش کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ کسی بل کو ایوان میں پیش کرنے کے وقت کا فیصلہ پارلیمانی امور کی وزارت کی طرف سے فراہم کردہ دن کے احکامات کی تجویز پر کرے، اس میں مزید بتایا گیا کہ سینیٹ حکومتی بل کو اپنے طور پر ایجنڈے پر لانے کا پابند نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان بالا میں پیش ہونے کے بعد غور کرنے اور رپورٹ بنانے کے لیے بل کو قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا، سینیٹ میں چند ترامیم کے ساتھ بل 20 اکتوبر 2022 کو پاس ہوا۔

آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 70 کلاز (2) اور سینیٹ میں کارروائی کے طریقہ کار اور طرز عمل کے قواعد 2012 کے قوانین 125 کے مطابق بل کو 20 اکتوبر 2022 کو واپس اس کے تخلیق کار ایوان (قومی اسمبلی) میں بھیج دیا گیا۔

انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حقیقت پر مبنی پوزیشن اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ موضوع بل کبھی غائب نہیں ہوا اور نا ہی وہ سینیٹ سیکریٹریٹ میں زیر التوا ہے بلکہ اسے آئین اور سینیٹ کے قواعد کے مطابق ایوان بالا میں منظوری کے بعد واپس قومی اسمبلی بھیج دیا گیا تھا۔

بھٹو پھانسی ریفرنس: ’سپریم کورٹ قصور وار ہے یا اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟ چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے 62 (ون) (ایف) کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کردی

باجوڑ: پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکا، 5 اہلکار جاں بحق، 27 زخمی