پاکستان

پائیدار ترقیاتی اہداف کو کووڈ، تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی سے شدید دھچکا لگا ہے، انوار الحق کاکڑ

پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصولِ کے لیے 5 اہم شعبوں میں اقدامات ناگزیر ہیں، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو تعاون کے نتائج پر اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصولِ کے لیے 5 اہم شعبوں میں اقدامات ناگزیر ہیں اور اسے کووڈ، تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے متعدد بحرانوں کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ہے۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو تعاون کے نتائج پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی، اس کی تجویز چینی صدر شی جن پنگ نے 20 ستمبر 2022 کو دی تھی۔

اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کی جانب پیش رفت کو کووڈ، تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے متعدد بحرانوں کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ہے۔

انہوں نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو کے لیے پاکستان کی حمایت کا اظہار کیا اور اس کے نفاذ سے حاصل کیے گئے سنگ میل کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اور چین پاکستان اقتصادی راہداری پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے اہم ذریعہ ہیں۔

انہوں نے 5 اہم شعبوں میں اقدامات کی ضرورت پر روشنی ڈالی جن میں خوراک کی پیداوار، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، صنعت کاری، صحت کی دیکھ بھال کے لچکدار نظام اور ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا شامل ہے۔

وزیر اعظم نے ترقیاتی عمل کی تمام سطحوں پر مناسب سرمایہ کاری کی ضرورت کو مزید اجاگر کیا اور صدر شی جن پنگ کی طرف سے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو کے نفاذ کے لیے 10 ارب ڈالر کے ایک اور فنڈ کے قیام کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان، چین اور گروپ آف فرینڈز آف جی ڈی آئی کے دیگر اراکین کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھانے کا منتظر ہے تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف پر عمل درآمد کے لیے ان کی اجتماعی خواہش کو پورا کیا جا سکے۔

تقریب سے چین کے نائب صدر ہان ژینگ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس اور دیگر اعلیٰ عہدیداران نے بھی خطاب کیا۔

اس سے قبل منگل کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نےاقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں عمومی بحث کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

قبل ازیں، نگران وزیر اعظم اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے سربراہان مملکت کے لیے دیے گئے استقبالیے میں شرکت کے لیے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے۔

وزیر اعظم گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے اور شرکا سے خطاب کریں گے۔

اس کے علاوہ وہ پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بھی شرکت کر کے خطاب کریں گے۔

وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے سیشن کے موقع پر ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی جبکہ ان کی ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات بھی متوقع ہے۔

نگران وزیراعظم امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے عالمی رہنماؤں کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیے میں بھی شرکت کریں گے۔

ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی اداروں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اصلاحات اور عالمی مالیاتی نظام میں ری اسٹرکچرنگ کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ کے مشہور زمانہ اسمبلی ہال میں خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ نے دنیا میں بڑھتی ہوئی ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی گورننس کے موجودہ ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے دنیا درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری دنیا بے ربط ہوتی جا رہی ہے، جغرافیائی سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے، عالمی چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور ہم جواب دینے کے لیے اکٹھے ہونے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ دنیا بدل گئی ہے لیکن ہمارے ادارے نہیں بدلے، اگر ادارے دنیا کی عکاسی نہیں کرتے ہیں تو ہم مسائل کو مؤثر طریقے سے حل نہیں کر سکتے، وہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کا حصہ بننے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بگڑتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال، بڑھتے ہوئے تنازعات، ڈرامائی تکنیکی رکاوٹوں اور بھوک اور غربت میں اضافے جیسے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کو اب صرف الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ 21ویں صدی کے معاشی اور سیاسی حقائق پر مبنی کثیر الجہتی اداروں کی تجدید کی جائے جو اقوام متحدہ کے برابری، یکجہتی اور آفاقیت کے قانون پر مبنی ہوں۔

کووڈ کے وبائی مرض کے بعد رواں سال عالمی رہنماؤں کا پہلا مکمل اجلاس ہے، جس میں 145 ممالک کے رہنما خطاب کرنے والے ہیں، یہ ایک بڑی تعداد ہے جو بحرانوں اور تنازعات کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔

لیکن کئی برسوں میں پہلی بار امریکی صدر جو بائیڈن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کرنے والے پانچ طاقتور ممالک میں سے واحد رہنما ہیں جنہوں نے 193 رکنی اسمبلی سے خطاب کیا۔

چین کے صدر شی جن پنگ، روس کے ولادیمیر پیوٹن، فرانسسی صدر ایمینوئل میکرون اور برطانیہ کے رشی سوناک اس سال اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے جبکہ یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی اجلاس میں پہلی بار شرکت کر رہے ہیں۔

سلامتی کونسل پانچ مستقل ارکان امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور 10 غیر مستقل ارکان پر مشتمل ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے مستقل پانچ ارکان میں سے صرف ایک رہنما کا انتخاب کیا۔

اقوام متحدہ کے 50 سے زائد ممالک کبھی بھی سلامتی کونسل کے رکن نہیں رہے۔