مِنی بجٹ: ’جو کنوارے ہاتھ پیلے کرنے کا سوچ رہے تھے ان کے چہرے غصے سے لال ہیں‘
اسحٰق ڈار عوام کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں کہ ہر شخص دھاڑیں مارمار کر رورہا ہے، سو ان کا نام اب اسحٰق دھاڑ مشہور ہورہا ہے۔ وہ جس طرح متوسط اور غریب طبقے کے پاکستانیوں کو دار پر چڑھانے کی ٹھان چکے ہیں اس دیکھتے ہوئے مستقبل کا مؤرخ (اگر اس کے والدین بھوک اور منہگائی سے بچ کر اسے دنیا میں لانے کے قابل ہوسکے تو) انہیں اسحٰق ’دار‘ بھی کہہ سکتا ہے۔
چند ماہ پہلے تک ایسا نہیں تھا، تب وہ اسحٰق ڈارلنگ تھے۔ خوابوں کا وہ شہزادہ تھے جو آکر سنڈریلا کی کایا کلپ کردیتا ہے۔ قوم کو انتظار تھا کہ ’کوئی آئے گا لائے گا دل کا چین‘، ڈالر کے بارے میں خیال تھا کہ وہ ڈار صاحب کا پالتو لقا کبوتر ہے جسے وہ ’آآآ‘ کرکے بلائیں گے اور وہ غٹرغوں کرتا ان کے پیروں پر آگرے گا۔
کسی حد تک ایسا ہوا بھی اور ڈالر کچھ نیچے آیا۔ شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ اسحٰق ڈار بھائی آگئے ہیں یا نہیں اور پھر اس نے دیکھا اور ’تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا‘ کہہ کر خوشی میں وہ اُڑان بھری کہ ساتھ ڈار صاحب کے ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑگئے اور عوام کی آس کا پنچھی بھی پُھر سے اُڑا اور اُڑتے اُڑتے دُور اُفق میں ڈوب گیا۔ پھر تو ’چیل اُڑی، کَوّا اُڑا‘ کا کھیل شروع ہوگیا اور ہر چیز کو پَر لگ گئے۔ پیٹرول، بجلی، گیس، اجناس، سبزی، گوشت دودھ ہر شے پرواز کرکے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی۔
اب ڈار صاحب نے پیش کیا ہے مِنی بجٹ۔ درحقیقت مِنی (mini) کہہ کر اس دیوہیکل اور بھاری بھرکم بجٹ کی توہین کی گئی ہے اور لفظ مِنی کی روسیاہی ہوئی ہے۔ اس پر سنا ہے اس لفظ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مِنی بدنام ہوا، ڈارلِنگ تیرے لیے‘۔
یوں تو اس منی بجٹ نے ہر شعبے پر بجلی گرائی ہے لیکن ستم یہ ہوا ہے کہ شادی بھی اس کی زد میں آئی ہے اور شادی ہالوں میں ہونے والی شادی کی تقریبات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کردینے کی ٹھان لی گئی ہے۔ ڈار صاحب کا یہ اقدام ہماری توقع کے عین مطابق ہے۔ ان سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ شادی زندگی ہی نہیں سیاست اور کاروبار کے لیے کس قدر اہم ہے۔ یہ شادی ہی تو ہے جس کے طفیل کوئی دلہا بنتا ہے تو کوئی سالا، بہنوئی اورسمدھی بن جاتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی اتنی عظیم اور اہمیت کی حامل رسم ہے جو انسان کو سمدھی کے منصب پر فائز کرنے کا سبب بنتی ہے اور پھر سمدھی بننے والا دھن سمیت جو چاہے بنائے چلا جاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ کوئی ’سمدھی نواز‘ میسر آجائے جو ’شریف‘ بھی ہو۔ کاش علامہ اقبال مسلمانوں کو مردِمومن بننے کے بجائے ’مردِسمدھی‘ بننے کا مشورہ دیتے اور ’وطن تمام ہے میراث مردِسمدھی کی‘ یا ’سمدھی کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں املاک‘ جیسے شعر کہتے تو قوم میں یہ پیغام تیزی سے عام ہوتا اور نہ جانے کتنے مردِسمدھی پیدا ہوچکے ہوتے۔ لیکن اس پیغام تک رسائی کے لیے قوم کو علامہ اقبال کی ضرورت نہیں پڑی، ان کے بغیر ہی یہ قوم تک پہنچ گیا اور اب یہ پیغام قوم پر اتنا کُھل چکا ہے کہ وہ سمدھی کو پیار سے ’Ransomدھی‘ کہنے لگی ہے۔ جن کی اردو بہت کم زور ہے وہ بھی اب سمدھی کے معنی سمجھ چکے ہیں، چنانچہ وضاحت کی ضرورت نہیں، اگر سمدھی کا مطلب آپ اب بھی نہ سمجھیں تو یہ آپ کی ناقابل معافی ناسمجھی ہے۔
سمدھی کا ذکر تو یوں آگیا کہ ان دنوں ہر زبان پر یہی ذکر ہے ورنہ بات ہورہی تھی شادی کی تقریبات پر ٹیکسوں کی۔ بات وہی ہے کہ وزیرخزانہ کے خیال میں آدمی شادی کرتا ہے تو بچے ہوتے ہیں، بچے ہوتے ہیں تو ان کی شادی ہوتی ہے، اس طرح ہر شادی کا لازمی نتیجہ سمدھی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے تو ایسے ’منافع بخش‘ رشتے پر ٹیکس کیوں نہ لگایا جائے۔ اس منطق کی رو سے تو شادی ہی پر ٹیکس لگا دینا چاہیے تھا لیکن ان کی مہربانی کہ انہوں نے صرف شادی کی تقریب وہ بھی جو ہال میں منعقد ہو، پر ہی محصول لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس ٹیکس کی خبر کنواروں کے لیے قیامت سے کم نہیں جو ہاتھ پیلے کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن اب ان کے چہرے غصے سے لال ہیں۔ لیکن ہمارے جی دار اسحٰق ڈار کو کسی کی برہمی کی کیا پروا وہ تو اتنے بہادر اور بے پروا ہیں کہ بقول خود آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔ سینہ گزٹ کے ذریعے ہم تک خبر پہنچی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بھی چکے تھے۔ انہیں یوں دیکھتے دیکھ کر آئی ایم ایف شرما گئی اور لجا کر ایک پُرانا گانا گانے لگی ’آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا نہ کیجیے، سب دیکھتے ہیں آپ کو ایسا نہ کیجیے‘۔ لیکن ڈار صاحب باز نہ آئے، ان کا خیال تھا کہ جس طرح چائے میں چینی، سالن میں نمک اور قوم کا پیسہ جیب میں ڈل جائے تو پھر نکالا نہیں جاسکتا، اسی طرح اگر آنکھیں آنکھوں میں ڈال دی جائیں تو نکالی نہیں جاسکتیں۔ وہ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر نکالا تو آنکھیں احتجاج نہ کرنے لگیں کہ ’کیوں نکالا‘۔
ان کی آنکھیں اب تک آئی ایم ایف کی آنکھوں میں ڈلی ہوتیں۔ وہ تو کہیں سے حکم، ہدایت یا مشورہ آیا کہ ’میاں! کب تک آئی ایم ایف سے معاہدے کی نوید کی منتظر قوم سے آنکھیں چُراتے رہیں، ایسے ہی آنکھیں نکال لو جیسے خود ملک سے نکل گئے تھے، ورنہ ہم قوم سے آنکھیں ملانے کے بالکل بھی قابل نہ رہیں گے‘۔ تب کہیں جاکر ڈار صاحب نے آنکھیں نکالیں اور جھکالیں، پھر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ آنکھیں اور پھر ہتھیار ڈال دینے کے سبب وزیرخزانہ ’اسحٰق ڈال‘ بھی کہے جانے لگے ہیں۔
ڈار صاحب کی منصفانہ اور ’حساب کتاب‘ کی فطرت نے گوارا نہ کیا کہ غیر کی آنکھوں میں آنکھیں اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالے جائیں اور اپنوں کو بُھلا ڈالا جائے سو انہوں نے قوم پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا، غریبوں کو روند ڈالا اور عوام کے سامنے منی بجٹ کو ہضم کرانے کے لیے ’اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا‘ کا چارا ڈالا۔ یہاں عام آدمی سے ان کی مُراد گھانا، موزمبیق، بھوٹان، زمبابوے اور کیوبا وغیرہ کا عام آدمی ہے جو یقیناً ان کے منی بجٹ سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوگا۔
وزیر خزانہ نے منی بجٹ، دلاسے اور آسرے ہی نہیں دیے بلکہ انہوں نے عوام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ سادگی اپنائے۔ یہ دراصل ان کی اپنی سادگی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے ’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘۔ پیارے بھائی! آپ نے عوام کے پاس عیش وعشرت کے لیے چھوڑا کیا ہے؟ حضور! ہمارے عوام تو اتنے ’سادہ‘ ہیں کہ باربار ان سیاسی جماعتوں کو منتخب کرلیتے ہیں جو اس سادہ عوام کی جیب میں رکھے نوٹ کو بھی ’ساڈا‘ سمجھتی ہیں، جیسے آپ اور آپ کی جماعت ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ کی غیراعلانیہ پالیسی کے تحت کر رہی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے زیرک وزیرخزانہ کی عوام نچوڑ مہم شادی کی تقریبات پر ٹیکس تک محدود نہیں رہے گی، بہت جلد آپ سُنیں گے کہ نکاح خواں کی فیس، نیوتے، سلامی، جوتا چھپائی، گاڑی رکوائی بھی ٹیکسوں کی زد میں آچکی ہیں۔ پھر اس ملک میں شادی شاذ ہی ہوا کرے گی، اور خدشہ ہے کہ ٹیکسوں کا مارا ہر کنوارہ اسحٰق ڈار کی جماعت کے لیے ’قومی کنوارے‘ کا روپ دھار لے گا۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔