سپریم کورٹ کا تمام فریقین کو 4 فیصد سپر ٹیکس ادا کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے سپر ٹیکس کے نفاذ کو مؤخر کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے تمام فریقین کو 4 فیصد سپر ٹیکس ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اور ایف بی آر کی اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر اعتماد میں لیتے ہوئے بڑی صنعتوں بشمول سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹو موبائل، کیمیکلز، مشروبات اور سگریٹ پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔
فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک نیا سیکشن سی-4 شامل کر کے زیادہ آمدنی والے افراد پر ایک سپر ٹیکس نافذ کیا تھا۔
اس سیکشن کے ذریعے ایف بی آر نے مالی سال 2022 میں 15 کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والے 13 شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا تھا۔
ان شعبوں میں اسٹیل، بینکنگ، سیمنٹ، سگریٹ، کیمیکل، مشروبات اور مائع قدرتی گیس کے ٹرمینلز، ایئر لائنز، ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، شوگر ملز، تیل، گیس اور کھاد کے شعبے شامل ہیں۔
اس کے بعد سے اس فیصلے کو ملک کی تقریباً تمام ہائی کورٹس میں مختلف بنیادوں پر چیلنج کیا گیا تھا۔
اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں فنانس ایکٹ 2022 کی شقوں کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے 100 سے زائد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فنانس ایکٹ 2022 میں ماضی میں کیے گیے کاروبار پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے۔
اس پر 22 دسمبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے گزشتہ مالی سال سے ٹیکس کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ٹیکس کا اطلاق آئندہ ٹیکس سال سے ہوگا۔
تاہم اس پر حکومتِ پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔
مذکورہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو 4 فیصد سپر ٹیکس کی ادائیگی کا حکم دے دیا۔
قبل ازیں 6 فروری کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم نامے میں ترمیم کرتے ہوئے زائد آمدن والے ٹیکس دہندگان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اپنا 50 فیصد سپر ٹیکس براہ راست فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں جمع کرائیں۔