’اُمید ہے نئے آرمی چیف فوج کو سیاست سے دور رکھنے کیلئے عملی اقدامات کریں گے‘
ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے جنرل عاصم منیر کو نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی نامزدگی پر مبارک بار پیش کی گئی اور امید ظاہر کی کہ وہ فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز (24 نومبر کو) قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران سب سے پہلے اپویشن لیڈر راجا ریاض احمد نے جنرل عاصم منیر کو پاک فوج کا سربراہ منتخب بننے پر مبارک باد دی۔
راجا ریاض احمد اس قدر عجلت میں تھے کہ انہوں نے ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی کو قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق ارکان کی چھٹیوں کی درخواستوں کی منظوری لینے کا موقع بھی نہیں دیا۔
تاہم اجلاس کے دوران شرمندگی کا مقام اس وقت آیا جب اپویشن لیڈر راجا ریاض احمد نے نئے آرمی چیف کی سمری پر دستخط کرنے میں تاخیر کرنے پر صدر عارف علوی کو تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ صدر مملکت پہلے ہی نئے آرمی چیف کے تقرر کی منظوری دے چکے تھے۔
اپوزیشن لیڈر نے الزام لگایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نئے آرمی چیف کے تقرر کے لیے سمری میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
بعد ازاں جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’میں صدر عارف علوی کا شکر گزار ہوں‘۔
ریاض احمد نے اُمید ظاہر کی کہ نئے آرمی چیف ملک کی بہتری کے لیے تمام تر صلاحتیوں کے ساتھ کام کریں گے اور سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی پالیسی اعلان کے مطابق (جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی) عاصم منیر اس پالیسی کو آگے لے کر چلیں گے۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی (جے آئی) کے مولانا عبدالرحمٰن اکبر چترالی نے بھی امید ظاہر کی کہ فوج کے نئے سربراہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے اور موجودہ خطرات کے تناظر میں ملک کی سرحدوں کو مزید محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ فوج نے خود کو سیاست سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن مسلح افواج کو پاکستان کے 20 کروڑ عوام کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبدالرحمٰن اکبر چترالی نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے انہیں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لوگوں کی جانب سے کوئی فون کال موصول نہیں ہوئی جو اس سے قبل بالخصوص پی ٹی آئی کے دور حکومت میں معمول کی بات تھی۔
جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ ایک روز انہیں رات ایک بجکر 54 منٹ پر ایجنسی سے کال موصول ہوئی اور دوسرے روز کسی اہم قانون سازی کے موقع پر انہیں ایک دن میں گیارہ فون کال موصول ہوئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اب نئے آرمی چیف کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر کے بیانیے پر عملی طور پر کام کریں، یہ سیاستدانوں کے لیے بھی امتحان ہے کہ وہ سیاست میں فوج کی مداخلت کی حمایت نہ کریں اور انہیں اپنے آئینی فرائض پر توجہ دینے کی اجازت دیں۔
انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کرنے پر مسلح افواج کو نشانہ بنایا۔
مولانا عبدالرحمٰن اکبر چترالی نے مسلح افواج میں اعلیٰ دو عہدوں کے لیے سینئر ترین جنرلز کو نامزد کرنے کے وزیر اعظم شہباز شریف کے فیصلے کو سراہا۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی علی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر کے بعد قوم کو اب آگے بڑھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم اور میڈیا کو تقرر کے عمل کو سنسنی خیز نہیں بنانا چاہیے تھا، افسوس ہے کہ اینکرز، یوٹیوبرز اور یہاں تک کہ عام لوگ بھی اس معاملے پر مختلف نظریات پیش کر رہے ہیں اور تنازعات پیدا کر رہے ہیں۔
علی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ اصل مسائل پر توجہ دینے کے بجائے پوری قوم ان تقرریوں پر بحث کرنے میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معمول کا طریقہ کار ہے اور تقرریاں کرنا وزیر اعظم کا اختیار ہے۔تاہم انہوں نے اس معاملے پر اتحادیوں سے مشاورت کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے آرمی چیف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کریں گے اور حکومت کی سیکیورٹی پالیسیوں کو صحیح معنوں میں نافذ کریں گے۔
قرادادیں منظور
اس کے علاوہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 2 قراردادیں مںظور کیں جن میں پہلی، جن میں سابق حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اشاعت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیلوں کو واپس لینے اور دوسری قرارداد میں حکومت سے کمرشل یونٹس کو گیس کی سپلائی منقطع کرنے کا نوٹی فکیشن واپس لینے اور اسے آر ایل این جی میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔