رشی سوناک، کینیا اور ’نیا برطانیہ‘
دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب انگریز، ہندوستان (آج کے بھارت، پاکستان، بنگلادیش) پر راج کر رہے تھے اور ہندوستانی سرزمین پر بنے کتنے ہی کلبوں میں ’کتوں اور ہندوستانیوں‘ کا داخلہ ممنوع تھا، مگر آج اسی سرزمین کا ایک فرد صادق خان لندن کا میئر ہے تو دوسرا رشی سوناک برطانیہ کا وزیرِاعظم بن چکا ہے۔
لو بھئی، جو اپنی زمین پر انگریزوں کے کلب میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے، وہ نہ صرف ان کے ملک میں گُھس بیٹھے بلکہ اب وہاں راج بھی کر رہے ہیں۔
رشی سوناک ہیں تو بھارتی، لیکن ان کے دادا ہمارے گوجرانوالہ کے تھے، اس لیے ہم انہیں تھوڑا بہت ’پاکستان والا‘ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے ہم پاکستانیوں کو بھی کون سا پورا پاکستانی سمجھتے ہیں۔ رشی سوناک کے خاندان کے بارے میں پڑھ کر لگتا ہے کہ اس خاندان کے پاؤں میں چکر تھا۔ رشی کے دادا رام داس سوناک 1935ء میں گوجرانوالہ چھوڑ کر کینیا کے دارالحکومت نیروبی چلے گئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کینیا ہی کیوں گئے؟
ہمارے خیال میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسے ہمارے ملک کے لوگوں کو کینیا اپنا اپنا سا لگنے لگا ہے ویسے ہی اس دور کے ’پاکستانیوں‘ کو بھی کینیا سے اپنائیت محسوس ہوتی ہوگی۔ ہمیں تو خیر اس لیے اپنا لگتا ہے کہ وہاں کی پولیس اور ’ہیاں‘ کی پولیس میں بڑی مماثلت ہے، لگتا ہے دونوں ’ٹوپی بدل‘ بہنیں ہوں، پھر کینیا بھی انگریز کے زیرِ اقتدار رہا اور ہم بھی، اس لیے دونوں ممالک کی ’پولیسیں‘ دودھ شریک نہ بھی ہوں ’نمک شریک‘ تو ہیں ہی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خود کو کینیا میں اتنا ہی محفوظ سمجھتے ہیں جتنا پاکستان میں سمجھتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو یہاں کیا جاسکتا ہے وہی وہاں کیا جاسکتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں نا! لیکن ہم یہ سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہیں کہ رشی صاحب کے دادا جان میں کیا اپنا پن محسوس ہوا۔
مزید پڑھیے: لز ٹرس کا اچانک استعفیٰ: برطانیہ میں آخر ہو کیا رہا ہے؟
خیر ہم کینیا کا نہیں رشی سوناک کے خاندان کا ذکر کر رہے تھے۔ تو صاحب رشی کے دادا نے کینیا میں ایک ہندوستانی ناری سے شادی کی اور پھر اس خاندان نے برطانیہ کی راہ لی، جہاں 1980ء کی 12 مئی کو رشی سوناک نے آنکھ کھولی اور اب انہیں وزیرِاعظم دیکھ کر کتنی ہی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئی ہیں۔
برِصغیر پاک وہند اور پھر پاکستانی شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے شخص کے برطانیہ کا وزیرِاعظم بننے کی خوشی ہمیں بھی ہے، لیکن چونکہ ’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘ اس لیے ہمیں یہ خدشہ بھی ستائے جارہا ہے کہ جس رفتار سے پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی، برطانیہ جارہے ہیں اور وہاں کی سیاست پر چھارہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ انگریزوں کا معاملہ ’اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخ زیبا لے کر‘ والا ہوجائے۔
ذرا تصور کیجیے وہ انگلستان کیسا ہوگا جہاں انگریز چھوٹی سی اقلیت بن چکے ہوں گے اور ہر طرف برِصغیر کے سانولے سلونے دکھائی دے رہے ہوں گے۔ ہمارے خیال میں ایک تبدیلی تو یہ آئے گی کہ برطانوی گوریوں کے لیے ’سانولا کرنے والی‘ کریم ایجاد ہوجائے گی، جس کے اشتہارات میں لکھا ہوگا، ’ایک ہفتہ لگانے سے رنگت شرطیہ سانولی‘۔
امکان ہے کہ ’جیمز بونڈ‘ کے کردار کے لیے گوری مرمریں رنگت، نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں کی شرط بھی ختم ہوجائے، پھر آپ کو بولی وڈ کے نوازالدین صدیقی یا رجنی کانت بھی جیمز بونڈ کے روپ میں نظر آسکتے ہیں، اور اس وقت سے ڈریے جب سنی دیول اس کردار میں اپنا ’ڈھائی کلو کا ہاتھ‘ چلاتے دکھائی دیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برطانیہ میں ثقافتی انقلاب کو مدِنظر رکھتے ہوئے جیمز بونڈ کا نام بدل کر ’جمیل بندوق‘، ’جُمن بَھنڈ‘ یا ’جمناداس بھیا‘ رکھ دیا جائے۔ پھر یہ تو طے ہے کہ ان فلموں میں ہر قتل کے بعد ایک گانا ضرور ہوگا اور آپ ’مُنی بدنام ہوئی، جیمزوا تیرے لیے‘ جیسے گانوں سے محظوظ ہوسکیں گے۔
مزید پڑھیے: ہمارے شرمیلے سیاستدان اسمبلی میں آخر کچھ بولتے کیوں نہیں؟
یہ بھی طے ہے کہ جسے ہم برٹش انگلش کہتے ہیں، وہ بھی ہندی، اردو اور پنجابی کے تڑکے اور نمک، مرچ، مسالوں کے ساتھ ایک ایسی زبان کا روپ دھار لے گی جسے سیکھنا اور سمجھنا ہمارے نوجوانوں کے لیے ذرا مشکل نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے ملتی جلتی زبان، جو نہ اردو اور ہندی سے ملتی ہے نہ انگلش سے، وہ ہم پہلے ہی بول رہے ہیں۔
ہمیں اور آپ کو اس صورتحال کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، لیکن ہمارے سیاستدانوں کے لیے یہ ’نیا برطانیہ‘ اور بھی پُرکشش ہوجائے گا۔ پاکستان کے سیاستدانوں کا برطانیہ سے لگ بھگ وہی رشتہ ہے جو بیویوں کا اپنے میکے سے ہوتا ہے، جہاں ذرا کھٹ پٹ ہوئی اور ’میں میکے چلی جاؤں گی تم دیکھتے رہیو‘ گاتی میکے روانہ۔
ہمارے رہنما بھی ایسے ہی برطانیہ جاتے ہیں اور سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ برِصغیر کے لیڈر برطانیہ جاکر آزادی لینا چاہتے تھے، اب وہ بس برطانیہ جانے کی آزادی چاہتے ہیں اور اس میں کوئی رکاوٹ انہیں برداشت نہیں۔ اس ملک پر ہمارے سیاستدانوں کو اتنا اعتماد ہے کہ کوئی وہاں جائیداد بناتا ہے تو کوئی رشتہ۔ وہاں بنائی ہوئی جائیداد ہاتھ سے نہیں جاتی اور ادھر بنائے ہوئے رشتے ٹوٹ بھی جائیں تو مشکل میں ہاتھ تھام ہی لیتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے خرچے بھی لندن میں نظر آتے ہیں اور بچے بھی، دونوں پوری کوشش کے باوجود چُھپ نہیں پاتے، جوں جوں بڑھتے ہیں اور بھی نظر آتے ہیں۔
قائدِاعظم، مولانا محمد علی جوہر اور ہمارے دیگر زعما گول میز کانفرنس میں شریک ہونے لندن جایا کرتے تھے، لیکن ہمارے آج کے اہلِ سیاست کرسی کے لیے میز کے نیچے نیچے (انڈر دی ٹیبل) مفاہمت کرنے کے لیے لندن کا رُخ کرتے ہیں، وہاں کبھی یہ گول مول باتیں کرتے ہیں، کبھی کُھلی ڈُلی، لیکن آخر میں پتا چلتا ہے کہ گول مال ہے بھئی سب گول مال ہے۔
آپ اگر برطانیہ جانا چاہیں تو مختلف ایئرلائنز کی پروازوں کے روٹس کے بارے میں جاننا ہوگا، لیکن ہمارے سیاسی قائدین کسی بھی فضائی کمپنی سے جائیں یا نجی طیارے پر سفر کریں، ان کا روٹ ایک ہی ہوتا ہے یعنی جیل، اسپتال، ایئرپورٹ، لندن۔
مزید پڑھیے: پاکستان کی قومی لفظیات
اگرچہ سیاسی شخصیات کے چلن کی وجہ سے یہ تاثر عام ہے کہ برطانیہ جانے کے لیے بیمار ہونا ضروری ہے، ورنہ ہیتھرو ایئرپورٹ سے یہ کہہ کر واپس کردیا جائے گا، ’نہ پلیٹلیٹس کم ہیں، نہ دل، جگر، گردے کا درد، ایسے ہی منہ اٹھا کر چلے آئے، چلو دفع دُور، واپس جاؤ‘ یقین مانیں یہ تاثر غلط فہمی کا نتیجہ ہے، آپ تندرست وتوانا ہوں تب بھی برطانیہ جاسکتے ہیں۔
یہ سب کہنے کا مقصد فقط اتنا تھا کہ جو برطانیہ ہماری چشم تصور نے دیکھا ہے وہ وجود میں آگیا تو پاکستانی سیاستدانوں کو سیاست کے لیے پاکستان آنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی، بلکہ انہیں ایک ہی ملک میں سیاست، علاج اور حکومت کرنے کی سہولت میسر ہوگی۔
البتہ ایک مسئلہ ہے، انہیں وہاں مٹنے کے لیے رضا مند قوم اور لٹنے کے لیے تیار قومی خزانہ نہیں ملیں گے، اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ یا تو اس قوم اور خزانے کو بھی ساتھ لے جائیں یا پھر تفریحی سیاست، بطور شغل حکومت اور اپنی معیشت کے لیے ہر چند سال بعد پاکستان آجایا کریں۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔