گرانی کی کہانی اور مفتاح کی ‘smile’
آؤ بچو! سنو کہانی، لیکن پہلے یہ سن لو کہ یہ کہانی ‘ایک تھا راجا، ایک تھی رانی’ والی نہیں کہ راجا رانی کے قصے کا اختتام تو ‘دونوں مرگئے، ختم کہانی’ کے ساتھ کہانی شروع ہوتے ہی ہوجاتا ہے۔
ہم جو کہانی سنانے جارہے ہیں اس میں سارے راجے اور تمام رانیاں صحیح سلامت رہیں گی، البتہ باقی کردار ‘قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھیے’ کہتے دھیرے دھیرے مر رہے ہوں گے۔ یہ وہ کہانی بھی نہیں جو ‘ایک تھا بادشاہ’ سے شروع ہوتی ہے، اس میں تو ایک سے بڑھ کر ایک بادشاہ موجود ہے۔ نہ یہ ‘ایک دفعہ کا ذکر ہے’ کیونکہ یہ تو ہر دفعہ کا ذکر ہے، وہ ذکر جو ہماری زندگی سے دفع ہوکر ہی نہیں دیتا۔
چلیے کہانی شروع کرتے ہیں۔
اسی زمانے کی بات ہے جب ملکِ پاکستان میں بہت مہنگائی ہوا کرتی تھی۔ اس مہنگائی سے سب ہی پریشان تھے، لیکن کچھ نیک دل، سرتاپا خلوص اور نہایت دیانتدار بزرگ اس سے کچھ زیادہ ہی تنگ اور رنجیدہ تھے۔ یہ بزرگ تھے شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن، جو گرانی پر ہر وقت جلتے کڑھتے رہتے اور یہ سوچ سوچ کر ملول رہتے کہ اس مہنگائی میں غریبوں کا گزارہ کیسے ہوتا ہوگا؟
جب مفلسوں کا حال دیکھ دیکھ کر ان کا اپنا بُرا حال ہوجاتا تو وہ قوالی ‘مہنگائی مار گئی’ یوں جھوم جھوم کر گاتے کہ عوام کو حال آجاتا تھا۔ آخر غریبوں کے حالات سے بے تاب ہوکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ گرانی مٹانے کے لیے حکومت گرادی جائے۔
مقصد نیک ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ جب غریبوں کو یہ پتا چلا کہ یہ حضرات انہیں غربت سے نجات دلانے کے لیے کیا کیا جتن کر رہے ہیں تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جو زیادہ غریب تھے، ان میں خوشی کی لہر بھی زیادہ دوڑی، جیسے جہانگیر ترین اور علیم خان۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے اور ان بزرگوں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔
ایم کیو ایم تو ہے ہی غریبوں کی جماعت، جو عشروں سے غربت مٹانے کے لیے کوشاں ہے، غربت مٹانا نیکی کا کام ہے اور نیکی اپنے گھر سے شروع کرنی چاہیے، سو ایم کیو ایم کے اکثر رہنماؤں نے یہی کیا۔ غریبوں کی ہمدرد اس جماعت نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حکومت کو یوں چھوڑا کہ اسے کہیں کا نہ چھوڑا اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی شریک سفر ہوگئی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ضروری نہیں کہ ضمیر کی آواز اندر سے آئے، بعض اوقات یہ باہر سے بھی آتی ہے اور فاصلہ زیادہ ہو تو ‘ضمیر’ فون کے ذریعے اپنی آواز پہنچاتا ہے۔ یوں ان سب نے مل کر مہنگائی کے خاتمے کے لیے حکومت ختم کردی اور خود اقتدار سنبھال لیا۔
حکومت ختم کرکے خود حکومت میں آنے والے ان بزرگوں نے اپنے اوپر بنے مقدمات ختم کیے، بیرونِ ملک جانے پر لگی پابندی ختم کیں، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ملنے والا ووٹ کا حق ختم کیا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون ختم کیا اور اتنا کچھ ختم کرنے کے بعد نئے نیک دل حکمرانوں نے سوچا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پچھلے حکمرانوں کی ہر نشانی ختم کردی جائے، یہ تو بڑا غیر جمہوری رویہ ہوگا، لوگ کیا کہیں گے، دنیا کیا کہے گی، پھر کوئی آثار تو ہوں جو بتا سکیں ‘خان آیا تھا’، یہ سب سوچ کر انہوں نے مہنگائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن ایسا نہیں کہ انہوں نے مہنگائی کو کھلا چھوڑ دیا ہو، غریبوں کے ہمدرد شریف الطبع حکمران ایسا کیسے کرسکتے تھے۔ انہوں نے جس مہنگائی کے خلاف اتنا احتجاج کیا تھا اسے کُھل کھیلنے کی اجازت کیسے دیتے۔ انہوں نے ‘اس’ مہنگائی سے صاف صاف کہہ دیا،‘اے بی گرانی! بہت کرلی تم نے من مانی، تم دوسرے کی لائی ہوئی مہنگائی ہو، ہم جیسے خوددار حکمران پرائی مہنگائی کیسے اپنا سکتے ہیں! اب سے نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پرتو جا کچھ اپنا ٹھکانا کرلے غیر کی گرانی نہیں اپنائیں گے، ہم اپنی مہنگائی خود لائیں گے، یہی ہماری غیرت کا تقاضا ہے’۔ اختر شیرانی نے ہمارے بارے میں ہی تو کہا تھا فقیری میں بھی اختر غیرتِ شاہانہ رکھتے ہیں۔
یہ سنتے ہی ‘وہ والی’ مہنگائی یہ جا وہ جا، اب جو ہے وہ ‘یہ والی’ مہنگائی ہے۔ اگر مہنگائی پہلے جتنی ہی ہوتی تو سابق وزیرِاعظم ‘چور’ کی تکرار کے ساتھ موجودہ حکمرانوں پر ‘نقل چور’ کی پھبتی بھی کس رہے ہوتے، اس لیے موجودہ وزیرِاعظم نے سوچا ‘کچھ نیا کر’ اور انہوں نے اپنی والی مہنگائی کی ایسی غزل گائی کہ اس کے سامنے پچھلی حکومت کی مہنگائی 4 مصرعوں والی رباعی ہوکر رہ گئی۔
اب یہ وہ گرانی تو ہے نہیں جو ہماری آپ کی طبیعت میں خود بخود ہوجاتی ہے، یہ گرانی تو بڑی محنت سے کرنی پڑتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیرِاعظم نے مفتاح اسمٰعیل کو چُنا۔ لگتا ہے وزیرِاعظم ان کے نام کے درست ہجے نہیں کرپائے، چنانچہ یہ سوچ کر چُن لیا کہ وہ دنیا سے ‘مفت’ میں تیل اور دیگر ضروریات لے آئیں گے۔ اب مفتاح اسمٰعیل عوام سے الزام پاتے اور ‘لندن’ سے ڈانٹ کھاتے ہیں، پھر یہ چنیدہ وزیرِ خزانہ، وزیرِاعظم کو دیکھ کر گاتے ہیں ‘چُنی’ بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیے’۔
مفتاح اسمعٰیل کو گرانی میں روانی، اس روانی کی نگرانی اور روپیہ گرانے کے فرائض سونپے گئے ہیں۔ انہوں نے روپیہ گرانے میں وہ مہارت دکھائی ہے کہ روپیہ سیاستدانوں کے اخلاق کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
مہنگائی آسمان پر اور روپیہ پاتال میں پہنچانے کے باوجود انہی کا جگرا ہے کہ مسکراتے رہتے ہیں۔ ان کی اس مسکراہٹ کے باعث اردو میں انگریزی لگا ایک نیا محاورہ در آیا ہے۔ اب اگر حشر برپا کرکے بھی کوئی مسکرائے تو لوگ اس مسکان کو سفاکانہ مسکراہٹ کے بجائے ‘مفتاح smile’ کہتے ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل جب بھی پریس کانفرنس کی نیت سے ٹی وی اسکرین پر مسکراتے ہوئے آتے ہیں تو عوام دل پر ہاتھ رکھ کر ان سے پوچھنے لگتے ہیں کہ ’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، کیا ‘بم’ ہے جس کو چھپا رہے ہو۔ مفتاح اسمٰعیل جس ‘شہباز اسپیڈ’ سے مہنگائی کر رہے ہیں لوگ انہیں ‘مہنگا اسمٰعیل’ کہنے لگے ہیں۔ کیوں نہ کہیں، ان کی اسمائل مونالیزا کی مسکراہٹ سے بھی مہنگی پڑی ہے۔
نئی مہنگائی کی اس کہانی میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مہنگائی کو حکومت پیار سے ‘مشکل فیصلہ’ کہتی ہے، اسے یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ والی مہنگائی عوام کے لیے فیصلہ کرنا مشکل بنا چکی ہے کہ موٹرسائیکل میں پیٹرول بھروائیں یا بسوں میں دھکے کھاکر کوفت اور غصے سے بھرے دفتر جائیں، گھر آئے مہمان کو چائے پر ٹرخائیں یا چھیپا کے دسترخوان پر لے جا بٹھائیں، آٹا خرید کر چینی کو ٹاٹا کریں یا آلو لے کر اور ٹماٹر چھوڑ کر سالن میں ذائقے کا گھاٹا کریں۔
اسکول کی فیس دیتے ہوئے والدین کی یہ کیفیت ہوتی ہے جیسے اپنے نہیں دشمن کے بچے پڑھا رہے ہوں، کہیں سے شادی کا کارڈ آجائے تو یوں خون خشک ہونے لگتا ہے جیسے ‘چشم براہ’ جنگ لڑنے کے لیے بلارہے ہوں اور کارڈ کے جواب میں چشم براہ خواتین و حضرات کو لکھنے کا دل چاہتا ہے ‘بھیا! یہاں زہر کھانے کے پیسے نہیں، تمہاری شادی میں جھپٹ پلٹ کر کھانے کو آنے کے لیے لفافہ اور کرائے کے پیسے کہاں سے لائیں تمہارا طوطا چشم’۔
بیویاں شوہر کو بجلی کا بل دکھانے سے پہلے ایدھی کی ایمبولینس کو فون کردیتی ہیں، گھروں میں انڈوں کی حفاظت یوں کی جاتی ہے جیسے سونے کے انڈے ہوں، خواتین کو انڈوں کی یوں پاسبانی کرتے دیکھ کر مرغیاں شرمندہ ہوجاتی ہیں۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا کہ جو برہم ہوکر اولاد سے کہتی تھیں ‘دودھ نہیں بخشوں گی’ اب لخت جگر بیکری سے انڈا لاتے ہوئے توڑ بیٹھے تو دھمکی ملتی ہے ‘انڈا نہیں بخشوں گی۔’
تو بچو! یہ تھی گرانی کی کہانی، جو ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، یقیناً یہ کہانی پڑھ کر آپ کے چہروں پر ‘مفتاح smile’ آگئی ہوگی۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔